بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کورونا کی وبا کے خاتمہ کے لیے اذان دینا


سوال

آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے  لوگ رات کو اپنے گھروں کی چھتوں پر  چڑھ کر اذان دے دیتے ہیں، شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟  اور اولی اور بہتر کیا ہے؟

جواب

وبا کے خاتمہ کے حوالے سے فقہاءِ حنفیہ سے کوئی روایت منقول نہیں، البتہ   بعض ناگہانی آفات اورشدید مصائب وپریشانی  سے نجات کے لیے اذان دینے کے حوالے سے  بعض فقہاء ِ شافعیہ نے اجازت دی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں موجودہ وبائی صورتِ حال میں اسے سنت یا مستحب سمجھے بغیر بطورِ علاج  اذان دینے کی گنجائش ہے، تاہم یہ اذانیں مساجد میں نہ دی جائیں۔ اس اذان کا حکم یہ ہے کہ مذکورہ شرائط کے ساتھ یہ مباح ہے۔ سنت، مستحب یا اولیٰ نہیں ہے۔

فتاوی بینات میں ہے:

’’اس لیے ایسی پریشانی کے موقع پر اذان دینے کی ہم ترغیب تو نہیں دیں گے، لیکن اگر کوئی دیتا ہے تو ہم اس کو ”بالکل غلط حرکت“ بھی نہیں کہیں گے‘‘.  (2/231)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وَقَالَ ابْنُ حَجَرٍ: هُوَ لُغَةً الْإِعْلَامُ وَشَرْعًا قَوْلٌ مَخْصُوصٌ يُعْلَمُ بِهِ وَقْتُ الصَّلَاةِ، وَخَرَجَ بِهَا الْأَذَانُ الَّذِي يُسَنُّ لِغَيْرِ الصَّلَاةِ كَالْأَذَانِ فِي أُذُنِ الْمَوْلُودِ الْيُمْنَى، وَالْإِقَامَةِ فِي الْيُسْرَى، وَيُسَنُّ أَيْضًا عَنِ الْهَمِّ وَسُوءِ الْخُلُقِ لِخَبَرِ الدَّيْلَمِيِّ، «عَنْ عَلِيٍّ: رَآنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِينًا فَقَالَ: (يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ إِنِّي أَرَاكَ حَزِينًا فَمُرْ بَعْضَ أَهْلِكَ يُؤَذِّنْ فِي أُذُنِكَ، فَإِنَّهُ دَرَأُ الْهَمِّ) قَالَ: فَجَرَّبْتُهُ فَوَجَدْتُهُ كَذَلِكَ» . وَقَالَ: كُلٌّ مِنْ رُوَاتِهِ إِلَى عَلِيٍّ أَنَّهُ جَرَّبَهُ، فَوَجَدَهُ كَذَلِكَ. وَرَوَى الدَّيْلَمِيُّ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ( «مَنْ سَاءَ خُلُقُهُ مِنْ إِنْسَانٍ أَوْ دَابَّةٍ فَأَذِّنُوا فِي أُذُنِهِ» ) اهـ". ( بَابُ الْأَذَانِ، الفصل الاول، ٢ / ٥٤٧، ط: دار الفكر)

البحرالرائق  کے حاشیے میں ہے:

"(قوله: وخرج بالفرائض إلخ ) قال الرملي: أي الصلوات الخمس، فلايسن للمنذورة. ورأيت في كتب الشافعية: أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم والمفزوع، والغضبان ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل: وعند إنزال الميت القبر؛ قياساً على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه أقول : ولا بعد فيه عندنا". (3/10)

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب في المواضع التي يندب لها الأذان في غير الصلاة

(قوله: لايسن لغيرها ) أي في الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر للخير الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة كما في أذن المولود والمهموم والمصروع والغضبان ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة وعند مزدحم الجيش وعند الحريق قيل وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا لكن رده ابن حجر في شرح العباب وعند تغول الغيلان أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه أقول ولا بعد فيه عندنا ا هـ أي لأن ما صح فيه الخبر بلا معارض فهو مذهب للمجتهد وإن لم ينص عليه".(1/385)

کفایت المفتی میں ہے:

دفع وبا کے لیے اذان کہنا مباح ہے

’’سوال: دفعِ وبا کے لیے اذان کہنا جائز ہے یا نہیں، تنہا یا گروہ کے ساتھ، مسجد میں یا گھر میں؟

جواب: دفع وبا کے لئے اذانیں دینا تنہا یا جمع ہوکر بطور علاج اور عمل کے مباح ہے، سنت یا مستحب نہیں ہے‘‘۔ ( کتاب الصلاۃ، 3 / 51)

کفایت المفتی میں ہے:

’’شدید وبا کے وقت بطورِ عمل اگر اذان کہی جائے اور اسے سنت یا مستحب نہ سمجھا جائے تو مباح ہے‘‘۔ ( کتاب الصلاۃ، پہلا باب: اذان و تکبیر، بعنوان: نماز کے علاوہ کن مواقع پر اذان کہنا جائز ہے؟ 3 / 45)

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

"طاعون وباء وغیرہ امراض کے شیوع کے وقت کوئی خاص نماز احادیث سے ثابت نہیں، نہ ہی اس وقت اذانیں کہنا کسی حدیث میں وارد ہوا ہے، اس لیے اذان کو یا نماز کو ان موقعوں میں ثواب یا مسنون یا مستحب جاننا خلاف واقع ہے"۔ ( فتاوی رشیدیہ : 152)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں