بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ویڈیو کے ذریعہ قضاء کا حکم / ویڈیو کی شہادت


سوال

ويڈيوکی شہادت کا کیا حکم ہے؟ مثلاً  کسی نے چوری کی یا زنا کیا اور اسے کیمرے نے ریکارڈ کر لیا، کیا محض ويڈيو کی بنیاد پر اسے سزا سنا دی جائےگی یا گواہوں کا ہونا ضروی ہوگا ؟جب کہ گواہوں کے جھوٹے ہونے کا امکان ہوتا ہے اور کیمرے سچا واقعہ ہوبہو نقل کر دیتے ہیں۔

جواب

ویڈیو کی شہادت کا اعتبارنہیں ہے،جرم کو ثابت کرنے کے لیے شرعی شہادت یا مجرم کا اقرار ضروری ہے، جاندار کی ویڈیو دیکھنا اور دکھانا جائز نہیں ہے، تاہم اگر مجرم نے اس کو دیکھ کر جرم کا اقرار کرلیا ہے، تو اس کو سزا دینا جائز ہوگا، اگر گواہ جھوٹی شہادت دیں گے تو وہ مجرم ہیں، ان پر آخرت میں سخت سزا ہوگی، جس طرح گواہ کا جھوٹا ہونے کا امکان ہے، اس طرح ویڈیو بھی جعلی ہونے کا امکان ہے،بلکہ اس کا وجود ہے، بالفرض ویڈیو جعلی نہ ہو تو بھی شہادت کے لیے معتبر نہیں ہے۔

مزید دیکھیے:

شرعی گواہوں کے بغیر محض ویڈیو کی بنا پر حدِ زنا جاری کرنے کا حکم

فتاوی شامی میں ہے:

"والطريق فيما يرجع إلى حقوق العباد المحضة عبارة عن الدعوى والحجة: وهي إما ‌البينة أو الإقرار أو اليمين أو ‌النكول عنه أو القسامة أو علم القاضي بما يريد أن يحكم به أو القرائن الواضحة التي تصير الأمر في حيز المقطوع به."

(كتاب القضاء،ج:5،ص:354،ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(ويثبت بشهادة أربعة) رجال (في مجلس واحد) فلو جاءوا متفرقين حدوا (ب) لفظ (الزنا)۔۔۔(ويثبت) أيضا (بإقراره)."

(كتاب الحدود،ج:4،ص:8،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"أما أقسام الشهادة فمنها الشهادة على الزنا وتعتبر فيها أربعة من الرجال، ومنها الشهادة ببقية الحدود والقصاص تقبل فيها شهادة رجلين، ولا تقبل في هذين القسمين شهادة النساء هكذا في الهداية.

ومنها الشهادة في الولادة والبكارة وعيوب النساء فيما لا يطلع عليه الرجال وتقبل فيها شهادة امرأة واحدة مسلمة حرة عدلة والثنتان أحوط هكذا في فتح القدير."

(كتاب الشهادات،الباب الأول في تعريف الشهادة وركنها وسبب أدائها وحكمها وشرائطها وأقسامها،ج:3،ص:451،ط:رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرائط أداء الشهادة فأنواع۔۔۔ أما الشرائط العامة فمنها العقل؛؛ لأن من لا يعقل لا يعرف الشهادة فكيف يقدر على أدائها، ومنها البلوغ فلا تقبل شهادة الصبي العاقل؛؛ لأنه لا يقدر على الأداء إلا بالتحفظ، والتحفظ بالتذكر، والتذكر بالتفكر، ولا يوجد من الصبي عادة؛ ولأن الشهادة فيها معنى الولاية۔۔۔ومنها العدالة، لقبول الشهادة على الإطلاق فإنها لا تقبل على الإطلاق دونها."

(کتاب الشہادۃ،بيان ركن الشهادة،ج:6،ص:268-267،ط:دار الکتب العلمیۃ)

وفیہ ایضاً:

"وكذا لا خلاف في أنه يسأل عن حالهم في الحدود والقصاص، ولا يكتفي بالعدالة الظاهرة، سواء طعن الخصم فيهم أو لم يطعن."

كتاب الشهادة،بيان ركن الشهادة،ج:6،ص:270،ط:دار الكتب العلمية)

قفط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100928

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں