بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی شرعی حیثیت و حکم


سوال

قرآن و حدیث میں تراویح کا ذکر نہیں ہے ،تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تراویح سنتِ مؤکدہ ہے ؟

جواب

رمضان المبارک میں تراویح کا اہتمام کرنا احادیث و آثار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ثابت ہے، چنانچہ حدیث کی مشہور و معروف کتاب صحیح مسلم میں "‌‌باب الترغيب في قيام رمضان، وهو التراويح"کے تحت حدیث ہے:

"عن ‌عائشة « أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى في المسجد ذات ليلة فصلى بصلاته ناس. ثم صلى من القابلة فكثر الناس. ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة أو الرابعة، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم. فلما أصبح قال: قد رأيت الذي صنعتم، فلم يمنعني من الخروج إليكم. إلا أني خشيت أن تفرض عليكم. قال: وذلك في رمضان »."

(كتاب الصلاة، رقم الحديث:761، ج:2، ص:177، ط:دارالمنهاج)

ترجمہ:"  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز (تراویح) پڑھی،  لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے،تیسری یا چوتھی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ  تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔"

خلفائے راشدین(حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ،حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ)اور کبار صحابہ  کرام سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تراویح پڑھنا ثابت ہے، بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ (جو خود خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں سے ایک، اور بہت بڑے فضائل کے حامل ہیں) نے جلیل القدر فقہاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں رمضان المبارک میں باجماعت تراویح کا اہتمام کروایا تو سب نے اس کی تحسین کی، کسی ایک نے بھی نکیر نہیں کی ،چنانچہ مؤطا امام مالکؒ میں ہے:

" كان ‌الناس ‌يقومون ‌في زمان عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين ركعة."

(كتاب الصلاة في رمضان،ج:1،ص:115،ط:دارإحياءالتراث العربي)

ترجمہ:لوگ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان المبارک میں 23رکعتیں پڑھتے تھے (بیس تراویح کی اور تین رکعات وتر کی)۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور ان کے بعد دونوں خلیفۂ راشد کے دور میں بھی تراویح باجماعت بیس رکعات ادا کی جاتی رہی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہم لوگوں سے زیادہ دین و شریعت کے معاملے میں سنجیدہ اور حساس تھے، دین میں اضافے کی تردید اور دین کی بنیادوں کی حفاظت میں کوئی ان جیسا نہیں ہوسکتا، ان کی مکمل زندگی اس کی شہادتوں سے بھرپور ہے۔ خصوصاً اعمالِ عبادت میں یہ حضرات،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت اور قرآن و سنت سے حاصل شدہ تعلیمات سے ہٹ کر کوئی قدم نہیں اُٹھاتے تھے،  اگر ان کے پاس سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی دلیل نہ ہوتی، کبھی بھی اسے اختیار نہ کرتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتوں میں باجماعت تراویح ادا فرمائی، باقی میں باجماعت ادا نہ کرنے کی وجہ بھی بیان فرمادی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد اب فرائض میں اضافے کا امکان بالکل بھی نہیں رہا، اس لیے تراویح جسے انفرادی ادا کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے جماعت بھی ثابت ہوچکی تھی اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باجماعت پڑھنے پر اتفاق کرلیا، ان کا اختلاف نہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یقیناً ان حضرات کی نگاہوں میں اس کے مآخذ اور دلائل تھے، کیوں کہ صحابہ کرام کسی منکر اور بدعت بات پر جمع ہونے والے نہیں تھے، بلکہ وہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال دیکھ کر اس کی نقل کرنے والے تھے، اور اجماعِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وجہ سے بھی اس کی تاکید بڑھ جاتی ہے۔نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی  اپنے خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنے  کا تاکیدی حکم دیا ہے، لہذا اُن حضرات کا کیا ہو اعمل بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مانند ہے، اور ان کی اطاعت بھی رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی ہی اطاعت ہے۔

شرح مشکل  الآثار میں ہے:

" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عليكم ‌بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي وعضوا عليها بالنواجذ ."

(‌‌باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الزمان الذي يجب على الناس فيه الإقبال على خاصتهم وترك عامتهم،ج:3، ص:223، ط:مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میرے بعد میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رکھنا۔"

مذکوربالا دلائل کی  بنیاد پر فقہائے کرام نے تراویح کو سنتِ مؤکدہ قرار دیاہے،اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے دور کےبعد سے لے کر آج تک تابعین ، تبع تابعین ،ائمہ مجتہدین، سلف صالحین سے پورے اہتمام کے ساتھ تراویح پڑھنا ثابت ہے۔

مزید دیکھیے:

تراویح کی صحیح تعداد کیا ہے؟

مبسوط سرخسی میں ہے:

"اختلفوا فيها وينقطع الخلاف برواية الحسن عن أبي حنيفة رحمهما الله تعالى أن ‌التراويح ‌سنة لا يجوز تركها؛ لأن النبي - صلى الله عليه وسلم - أقامها ثم بين العذر في ترك المواظبة على أدائها بالجماعة في المسجد وهو خشية أن تكتب علينا ثم واظب عليها الخلفاء الراشدون - رضي الله عنهم - وقد قال النبي - صلى الله عليه وسلم - «عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين من بعدي» وأن عمر - رضي الله عنه - صلاها بالجماعة مع أجلاء الصحابة فرضي به علي - رضي الله عنه - حتى دعا له بالخير بعد موته كما ورد وأمر به في عهده.(قال) ولو صلى إنسان في بيته لا يأثم هكذا كان يفعله ابن عمر وإبراهيم والقاسم وسالم الصواف - رضي الله عنهم أجمعين - بل الأولى أداؤها بالجماعة لما بينا ."

(كتاب الصلاة، ج:2، ص:145، ط:دارالمعرفة)

المحیط البرہانی میں ہے:

"أما الكلام في صفتها، فنقول: ‌التراويح ‌سنة هو الصحيح من المذهب، وهكذا روى الحسن عن أبي حنيفة رحمة الله عليه نصا، والدليل على أنها سنة قوله عليه السلام: «إن الله تعالى فرض عليكم صيامه وسننت لكم قيامه» ، وقد صح أنه عليه السلام أقامها في بعض الليالي، وبين العذر في ترك المواظبة عليها، وهو خشية أن تكتب علينا ثم واظب عليها الخلفاء الراشدون، وقال عليه السلام: «عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين من بعدي» ، وقال عليه السلام في حديث سلمان؛ «إن الله تعالى فرض عليكم صيامه وسن لكم قيامه» ، فهذا الخبر يشير إلى أنه سنة الله، ومعناه: موضع الله ومرضاته وإنها سنة الرجال والنساء جميعا ما روى عرفجة بن عبد الله الثقفي عن علي رضي الله عنه، بدليل أنه كان يأمر النساء بصيام رمضان، وكان يجعل للرجال إماما وللنساء إماما، قال عرفجة: فأمرني فكنت إماما للنساء. وعن هشام بن عروة عن أبي مكية أن عائشة رضي الله عنها أعتقت ديجون عن دين، مكان قومها ومن معها في رمضان في المصحف، وقال أبو حنيفة رحمه الله لم يرد ذلك، فإنه روى في إبراهيم النخعي رحمه الله أنه قال: كانوا يكرهون أن يؤم الوصل في المصحف، لما فيه من الشبه باليهود. وأما الكلام في كمها، فنقول إنها مقدرة العشرين ركعة عندنا."

(كتاب الصلاة، ‌‌الفصل الثالث عشر في التراويح والوتر، ج:1، ص:456، ط:دارالكتب العلمية)

کفایت المفتی میں ہے:

" نمازِ تروایح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین دن جماعت سے پڑھائی ہے ،چوتھے دن باوجود صحابہ رضوان اللہ علیم اجمعین کے اجتماع اور اس کوشش کے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حجرے سے نکلیں اور نماز پڑھائیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے،اور فرمایا کہ مجھے یہ خوف ہوا کہ یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے، چنانچہ تراویح کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ نہ اس رمضان کے باقی ایام میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی نہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ مبارک میں جماعت سے پڑھی گئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی کئی سال ایک جماعت کا اہتمام نہیں ہوا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جماعتِ تراویح کا اہتمام کیااور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو تراویح پڑھانے کے لیے متعین فرمادیا۔"

(کتاب الصلاۃ،جلد سوم، صفحہ نمبر 408، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102641

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں