بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی صحیح تعداد کیا ہے؟


سوال

تراویح کی صحیح تعداد کیا ہے ؟حدیث اور روایات کی روشنی میں آگاہ کریں!

جواب

رمضان کی راتوں میں بیس رکعات تراویح پڑھنا  سنتِ مؤکدہ ہے، اور یہ سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے  زمانے  سے  جاری وساری ہے،بیس رکعات کی تعداد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین وتبع تابعین کے اقوال واعمال اور اجماعِ صحابہ سے ثابت ہےاور خیر القرون کے زمانے سے تواتر کے ساتھ امتِ مسلمہ اس پر عمل پیرا ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی روایت ہے: 

"أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يصلي في رمضان عشرين ركعةً و الوتر."

(أخرجه ابن أبي شيبة  في كم يصلى في رمضان (2/ 164) برقم (7692)،ط.مكتبة الرشدالرياض، الطبعة الأولى ، 1409)، وأخرجه الطبراني في الكبير (11/ 393) برقم (12102)، وفي الأوسط (5/ 324) برقم (5440)،  والبيهقي في الكبرى فيباب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان (2/ 496) برقم (4799)،ط.مجلس دائرة المعارف النظامية الكائنة في الهند ببلدة حيدر آباد، الطبعة : الطبعة : الأولى ـ 1344 هـ)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان میں  بیس رکعات اور وتر  پڑھتے تھے ۔

اور بیس رکعت تراویح ادا کرنا صحابہ کرام کا بھی معمول تھا،  یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت بیس رکعت تراویح کا اہتمام مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کروایا تو ان پر کسی نے نکیر نہیں کی، بلکہ تمام صحابہ کرام نے باجماعت تراویح کے اہتمام پر اتفاق کیا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کابیس رکعات پراتفاق یعنی اجماعِ صحابہ اس بات کی شہادت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح بیس رکعات ہی پڑھائی ہیں۔

"عن عبد الرحمن بن عبد القارىء وكان يعمل لعمر مع عبد الله بن الأرقم على بيت المال، قال: فخرج عمر ليلة ومعه عبد الرحمن بن عوف، وذلك في رمضان، والناس أوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته النفر، فقال عمر بن الخطاب: إني لأظن أن لو جمعنا هؤلاء على قارئ واحد كان أفضل، فعزم أن يجمعهم على قارئ واحد فأمر أبي بن كعب فأمهم فخرج ليلة، والناس يصلون بصلاة قارئهم فقال: نعم البدعة هذه والتي تنامون عنها أفضل من التي تقومون يريد آخر الليل وكانوا يقومون في اول الليل."

أخرجه  عبد الرزاق في مصنفه في  باب قيام رمضان (4/258) برقم (7723) 

وفيه أيضًا في (4/ 261) برقم (7733):

"عن السائب بن يزيد قال كنا ننصرف من القيام على عهد عمر وقد دنا فروع الفجر وكان القيام على عهد عمر ثلاثة وعشرين ركعة."

وفيه أيضًا في (4/ 262) برقم (7735):

"عن ابن جريج قال أخبرني عطاء أن القيام كان على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم في رمضان يقوم النفر والرجل كذلك ها هنا والنفر وراء الرجل فكان عمر اول من جمع الناس على قارئ واحد.

(و)عن يحيى بن سعيد أن عمر بن الخطاب أمر رجلًا يصلي بهم عشرين ركعةً."

أخرجه ابن أبي شيبة في مصنفه  في كم يصلى في رمضان من ركعة (2/ 163) برقم (7682).

وفيه أيضًا برقم (7684):

"عن عبد العزيز بن رفيع قال: كان أبي بن كعب يصلي بالناس في رمضان بالمدينة عشرين ركعة ويوتر بثلاث."

اورحضرت حضرت علی رضی اللہ عنہ       بھی بیس رکعات پڑھانے کا حکم   دیا کرتے تھے۔

"عن ابن أبي الحسناء أن عليا أمر رجلا يصلي بهم في رمضان عشرين ركعةً."

 أخرجه ابن أبي شيبة في مصنفه  في كم يصلى في رمضان من ركعة (2/ 163) برقم (7681).

حضرت شتیربن شکل ، ابو البحتری، حارث، علی بن ربیعة   رحمہم اللہ  اس طرح دیگر  کئی تابعین وتبع تابعین سے بیس رکعات  پڑھنا، پڑھانا ثابت ہے۔ حضرت عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو  پایا (یعنی:رمضان میں خیر القرون کا عمل یہ تھا) کہ وہ وتر کے ساتھ تیئس (۲۳) رکعات  پڑھا کرتے تھے۔

"عن عبد الله بن قيس عن شتير بن شكل أنه كان يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر."

أخرجه ابن أبي شيبة في مصنفه  في كم يصلى في رمضان من ركعة (2/ 163)

وفيه أيضًا برقم (7683):

"عن نافع بن عمر قال: كان ابن أبي مليكة يصلي بنا في رمضان عشرين ركعةً ويقرأ بسورة الملائكة في ركعة."

وفيه أيضًا برقم (7685):

"عن أبي إسحاق عن الحارث أنه كان يؤم الناس في رمضان بالليل بعشرين ركعةً ويوتر بثلاث ويقنت قبل الركوع."

وفيه أيضًا برقم (7686):   

"عن أبي البختري أنه كان يصلي خمس ترويحات في رمضان ويوتر بثلاث."

وفيه أيضًابرقم (7688):

"عن عطاء قال: أدركت الناس وهم يصلون ثلاثة وعشرين ركعةً بالوتر."

 وفيه أيضًا برقم (7690): 

"عن سعيد بن عبيد أن علي بن ربيعة كان يصلي بهم في رمضان خمس ترويحات ويوتر بثلاث."

مرقاةاالمفاتیح   میں ہے:

’’لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً‘‘. 

(كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان، (3/ 382)، ط. رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

’’التراويح سنة مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين‘‘.

(كتاب الصلاة، مبحث صلاة التراويح، 2/ 43 ط. سعيد)

نیز اصولِ حدیث کا ضابطہ ہے کہ دین اور آخرت سے متعلق امور میں اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوئی فضیلت یا وعید یا تعداد وغیرہ متعین کرکے بتائیں، تو وہ اپنی طرف سے نہیں بتاتے، بلکہ اس بارے میں ان کے پاس کوئی اصل اور دلیل ضرور ہوتی ہے جو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوتی ہے، لہٰذا اس طرح کے امور سے متعلق صحابی کا اپنا قول بھی حدیث مرفوع کا درجہ رکھتاہے، کیوں کہ صحابہ کرام دین کے احکامات میں اپنی طرف سے ہرگز اضافہ نہیں کرسکتے۔علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفاءِ راشدین کی سنت کی پیروی کا بھی حکم دیا ہے۔

سعودی عرب کے نامورعالم مسجدِنبوی کے مشہورمدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق)  قاضی الشیخ عطیہ محمدسالم رحمہ اللہ (متوفی ۱۹۹۹ء) نے نمازِتراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویح أكثرمن ألف عامٍ في المسجد النبوي) لکھی ہے،  کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"مسجدِ نبوی میں نمازِ تراویح ہو رہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ  رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ  رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجدِنبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ  کر بہت افسوس ہوتا ہے، لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں، تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے۔

اس کتاب میں 1400 سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمدسالم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’اس تفصیلی تجزیہ کے بعدہم اپنے قُراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجدِنبوی میں مستقل آٹھ رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یاچلیں بیس سے کم تراویح پڑھناہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تویہ ہے کہ پورے  چودہ سوسالہ دور میں بیس یا اس سے زائدہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیاکسی صحابیؓ یاماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیاکہ ۸ سے زائدتراویح جائز نہیں ہیں اوراس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو؟ "۔

(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، ص:48، بابت ماہ جولائی اگست،2013ء) 

فقط   واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے جامعہ کے ترجمان رسالہ ”ماہنامہ بینات“ میں اس موضوع پر تفصیلی مضمون ملاحظہ فرمائیں:

رکعاتِ تراویح بیس یا آٹھ۔۔۔۔۔!


فتوی نمبر : 144209201984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں