بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح پڑھنے کی ابتدا کب ہوئی؟


سوال

تراویح پڑھنا کب شروع ہوئی؟  اس کی ابتدا  کے بارے میں بتادیں۔

جواب

رمضان المبارک میں تراویح پڑھنے کی ابتداء حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہوئی، ابتداءً تین دن حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی نماز باقاعدہ جماعت سے پڑھائی تاہم اس کے بعد تراویح کی نماز کی فرضیت کے اندیشہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمداً مداومت نہیں فرمائی، اور جماعت سے پڑھنے کو ترک کردیا تھا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود پڑھتے تھے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں باقاعدہ جماعت کے ساتھ شروع ہوئی ، جیسے کہ درجِ ذیل روایت میں مروی ہے:

"أخبرني ‌عروة : أن ‌عائشة رضي الله عنها أخبرته: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ليلة من جوف الليل، فصلى في المسجد، وصلى رجال بصلاته، فأصبح الناس فتحدثوا، فاجتمع أكثر منهم فصلوا معه، فأصبح الناس فتحدثوا، فكثر أهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة عجز المسجد عن أهله، حتى خرج لصلاة الصبح، فلما قضى الفجر أقبل على الناس، فتشهد، ثم قال: أما بعد، فإنه لم يخف علي مكانكم، ولكني خشيت أن تفترض عليكم فتعجزوا عنها. فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌والأمر ‌على ذلك".

(صحیح البخاری، کتاب صلوۃ التراویح، باب فضل من قام فی شہر رمضان،رقم الحدیث:2012،  ج:3، ص:45، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ:" عروہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درمیانی رات میں (رمضان کی) نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، صبح کو لوگوں نے اس کا ایک دوسرے پر چرچا کیا، دوسرے دن اس سے زیادہ لوگ جمع ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پھر صبح ہوئی تو اس کو لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا،  تیسری رات میں اس سے زیادہ آدمی جمع ہوئے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب چوتھی رات آئی تو مسجد میں لوگوں کا اس میں سمانا دشوار ہوگیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز کے لیے نکلے جب صبح کی نماز ادا کی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ! امابعد، مجھ سے تم لوگوں کی موجودگی پوشیدہ نہیں تھی، لیکن مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ ہوجائے اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز آجاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی اور حالت یہی رہی۔"

پھر عہدِ صحابہ میں جب یہ اندیشہ نہ رہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو  ایک  امام پر  اکھٹا کرکے  باجماعت تراویح کا فیصلہ کیا،جیسے کہ درجِ ذیل روایت میں ذکر ہے:

"عن ‌عبد الرحمن بن عبد القاري أنه قال: «خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه ليلة في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر: إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل، ثم عزم فجمعهم على أبي بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى والناس يصلون بصلاة قارئهم، قال عمر: نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون، يريد آخر الليل، وكان الناس يقومون أوله".

(صحیح البخاری، کتاب صلوۃ التراویح، باب فضل من قام فی شہر رمضان،رقم الحدیث:2010،  ج:3، ص:45، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ:" عبدالرحمن بن عبدالقاری نے بیان کیا کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ کوئی الگ نماز پڑھ رہا ہے اور کہیں ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے تو اس کے ساتھ کچھ لوگ نماز پڑھتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ ان سب کو ایک قاری پر متفق کروں تو زیادہ بہتر ہوگا، پھر اس کا عزم کر کے ان کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع کردیا، پھر میں ان کے ساتھ دوسری رات میں نکلا لوگ اپنے قاری کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، تو حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام بہت ہی اچھا ہے۔ اور وہ نماز جس کے وقت تم سوتے ہو وہ اس سے بہتر جو تم قائم کرتے ہو، یعنی رات کے آخری پہر کی نماز، اور لوگ اس وقت رات کے ابتدائی حصے  میں یہ قیام کیا کرتے تھے۔"

العناية شرح الهداية  میں ہے:

"والأصح أنها سنة، كذا روى الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله - لأنه واظب عليها الخلفاء الراشدون والنبي - عليه الصلاة والسلام - بين العذر في تركه المواظبة وهو خشية أن تكتب علينا

قوله: (ذكر لفظ الاستحباب والأصح أنها سنة) يعني في حق الرجال والنساء، وفيه نظر؛ لأنه قال: يستحب أن يجتمع الناس، وهذا يدل على أن اجتماع الناس مستحب، وليس فيه دلالة على أن التراويح مستحبة، وإلى هذا ذهب بعضهم فقال: التراويح سنة والاجتماع مستحب. وقوله: (لأنه واظب عليها الخلفاء الراشدون) إنما يدل على سنيتها لقوله - صلى الله عليه وسلم - «عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين من بعدي» فإن قيل: لو كانت سنة لواظب عليها النبي صلى الله عليه وسلم ولم يواظب. والجواب بأنه بين عليه الصلاة والسلام العذر في تركه المواظبة، وهو خشية أن تكتب علينا. روي «أنه صلى الله عليه وسلم خرج ليلة من ليالي رمضان وصلى عشرين ركعة، فلما كانت الليلة الثانية اجتمع الناس فخرج وصلى بهم عشرين ركعة، فلما كانت الليلة الثالثة كثر الناس فلم يخرج عليه الصلاة والسلام وقال: عرفت اجتماعكم لكني خشيت أن تكتب عليكم» فكان الناس يصلونها فرادى إلى زمن عمر - رضي الله عنه -، فقال عمر: إني أرى أن أجمع الناس على إمام واحد، فجمعهم على أبي بن كعب فصلى بهم خمس ترويحات عشرين ركعة".

(کتاب الصلوۃ، فصل فی قیام شہر رمضان، ج:1، ص:467، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم

مزید دیکھیے:

تراویح کی شرعی حیثیت و حکم


فتوی نمبر : 144408102538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں