بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی رکعات کی تعداد


سوال

تراویح کتنی رکعت ہے؟

جواب

رمضان المبارک میں تین دن تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تراویح پڑھانا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، پھر لوگوں کے  ذوق وشوق کو دیکھ کر اس اندیشہ سے باجماعت پڑھانا  ترک فرمادیا کہ کہیں فرض نہ ہوجائے، چنانچہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے:

’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کچھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز پڑھی تو لوگ زیادہ ہوگئے، پھر لوگ تیسری یا چوتھی رات بھی مسجد میں جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف نہ لائے،  صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں دیکھا  تو مجھے تمہاری طرف نکلنے کے لیے کسی نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ رمضان المبارک ہی کے بارے میں تھا‘‘۔ [صحیح مسلم،کتاب الصلوۃ،باب الترغیب فی قیام رمضان،ج:۱،ص:۲۵۹۔ط:قدیمی کتب خانہ کراچی]

تعدادرکعات کے بارے میں میں ایک روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:

" أنّ رسول الله صلی الله علیه وسلم کان یصلّي في رمضان عشرین رکعةً". [مصنف ابن أبي شیبة، باب من کان یری القیام في رمضان، ج:۲، ص:۳۹۴. ط:دارالقبلة، بیروت]

نیز اسی طرح کی روایت ’’التلخیص الحبیر‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ:

" أنه صلى الله عليه وسلم صلى بالناس عشرين ركعةً ليلتين، فلما كان في الليلة الثالثة اجتمع الناس فلم يخرج إليهم، ثمّ قال من الغد: خشيت أن تفرض عليكم فلاتطيقوها". [التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الکبیر، باب صلاة التطوع، ج:۲، ص:۵۳. ط: دارالکتب العلمیة، بیروت]

 اگر امت کسی حدیث کو قبول کرلے اور اس پر سب عمل کریں  تو وہ متواتر کے معنی میں ہوجاتی ہے، اور امت کا کسی حدیث کو قبول کرنا اس کی صحت اور حجت ہونے کی قوی ترین دلیل ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ حدیث اگرچہ خبر واحد ہے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور تمام امت نے اسے قبول کیا ہے ۔

اور بیس رکعت تراویح ادا کرنا صحابہ کرام کا بھی معمول تھا،  یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت بیس رکعت تراویح کا اہتمام مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کروایا تو ان پر کسی نے نکیر نہیں کی، بلکہ تمام صحابہ کرام نے باجماعت تراویح کے اہتمام پر اتفاق کیا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کابیس رکعات پراتفاق یعنی اجماعِ صحابہ اس بات کی شہادت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح بیس رکعات ہی پڑھائی ہیں۔

نیز اصولِ حدیث کا ضابطہ ہے کہ دین اور آخرت سے متعلق امور میں اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوئی فضیلت یا وعید یا تعداد وغیرہ متعین کرکے بتائیں، تو وہ اپنی طرف سے نہیں بتاتے، بلکہ اس بارے میں ان کے پاس کوئی اصل اور دلیل ضرور ہوتی ہے جو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوتی ہے، لہٰذا اس طرح کے امور سے متعلق صحابی کا اپنا قول بھی حدیث مرفوع کا درجہ رکھتاہے، کیوں کہ صحابہ کرام دین کے احکامات میں اپنی طرف سے ہرگز اضافہ نہیں کرسکتے۔

علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ نے خلفاءِ راشدین کی سنت کی پیروی کا بھی حکم دیا ہے، اس اعتبار سے بھی اگر کوئی خلیفہ راشد کوئی رسمِ خیر جاری کریں تو اس کی اتباع خود رسول اللہ ﷺ کی اتباع ہے، اور ان کی سنت کو رسول اللہ ﷺ کی ہی سنت کہا جائے گا۔

اور صحابہ کرام کے اجماع سے لے کر آج تک تمام فقہاءِ کرام اور امتِ مسلمہ کا اجماع ہے، اور تمام فقہاء کے نزدیک تراویح بیس رکعات سنت ہے، اور بلاعذر اس کاتارک گناہ گار ہے، اور بیس رکعت تراویح کا انکارنصوصِِ شرعیہ سے ناواقفیت، جمہور فقہا ءِ کرام کی مخالفت اور گم راہی ہے، اور  تراویح کو آٹھ رکعت کہنا اور اس پرعمل کرنا اجماعِ امت کے خلاف ہے۔

مرقاةاالمفاتیح   میں ہے:

’’لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً‘‘. (كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان، ٣/ ٣٨٢، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

’’التراويح سنة مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين‘‘. (كتاب الصلاة، مبحث صلاة التراويح، ٢/ ٤٣، ط: سعيد)

سعودی عرب کے نامورعالم مسجدِنبوی کے مشہورمدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمدسالم رحمہ اللہ (متوفی ۱۹۹۹ء) نے نمازِتراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویح أکثرمن ألف عامٍ في المسجد النبوي)  لکھی ہے،  کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

مسجدِ نبوی میں نمازِ تراویح ہو رہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ  رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ  رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجدِنبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ  کر بہت افسوس ہوتا ہے، لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں، تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے۔

اس کتاب میں ۱۴۰۰ سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمدسالم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’اس تفصیلی تجزیہ کے بعدہم اپنے قُراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجدِنبوی میں مستقل آٹھ رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یاچلیں بیس سے کم تراویح پڑھناہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تویہ ہے کہ پورے  چودہ سوسالہ دور میں بیس یا اس سے زائدہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیاکسی صحابیؓ یاماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیاکہ ۸ سے زائدتراویح جائز نہیں ہیں اوراس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو؟ ۔‘‘ (ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، ص:۴۸، بابت ماہ جولائی اگست، ۲۰۱۳ء) 

مزید تفصیل کے لیے جامعہ کے ترجمان رسالہ ”ماہنامہ بینات“ میں اس موضوع پر تفصیلی مضمون ملاحظہ فرمائیں:

رکعاتِ تراویح بیس یا آٹھ۔۔۔۔۔!

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں