بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹک ٹاک/ اسنیک ویڈیو پر اسلامی ویڈیوز اَپ لوڈ کرنا


سوال

 کیا میں ٹک ٹاک یا اسنیک ویڈیو ایپ پر اسلامی ویڈیو اَپ لوڈ کر سکتا ہوں؟ اس میں میری رہنمائی فرمائیں!

جواب

صورت مسئولہ میں ٹک ٹاک (TikTok) اور اسنیک ویڈیو  (snack video)  اور اس جیسی دیگر ایپلیکشنز  استعمال کرنے اور ان پر کوئی بھی چیز اَپ لوڈ کرنے سے (چاہے وہ دینی تعلیم و تبلیغ پر مبنی ہو)  اجتناب کرنا لازم ہے، اس   لیے کہ اس میں کئی طرح کے  مفاسد پائے جاتے ہیں (جن کی تفصیل نیچے  دیے گئے لنک میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے)،  لہٰذا ان ایپلیکشنز پر دینی و اصلاحی ویڈیوز اَپ لوڈ کرنا مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا  پر ممنوع ہوگا:

1-   دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت  کے لیے ایسے ذرائع اختیار کرنا  چاہیے جن میں گناہوں اور فتنوں میں پڑنے کا خدشہ نہ ہو؛   جب کہ اس ایپ کو استعمال  کرتے ہوئے گناہوں (بد نظری، موسیقی، ضیاع وقت وغیرہ وغیرہ) میں پڑنے کا قوی  احتمال ہوتا ہے۔

2-   اگر دینی  ویڈیو میں جان دار کی تصویر  وغیرہ ہو تو یہ سراسر ناجائز ہے۔

3- اگر کوئی تصویر یا موسیقی  یا کوئی اور  شرعی مانع نہ بھی ہو تو  بھی عموماً  مذکورہ ایپلی کیشن کو استعمال کرتے ہوئےلوگوں کا  اس  کے ذریعے  غیر شرعی امور میں وقوع کا  امکان زیادہ  ہوتا ہے، اور ان کو دینی ویڈیو دیکھنے کی ترغیب  کے ضمن میں  ایسی ایپ کے استعمال کی دعوت  شامل  ہے  جس کے مفاسد اور   برائیاں بے شمار ہیں؛ لہٰذا کسی بھی طریقے سے ایسی ایپلیکشنز کو استعمال کرنے کی دعوت نہیں ہونی  چاہیے، جب کہ  فی زمانہ  اکثر دینی بیانات کی ویڈیوز جان دار کی تصویر سے خالی نہیں ہیں اور جان دار کی تصویر پر مشتمل ویڈیو ناجائز ہے۔

4- جو شخص بھی ان ایپلیکشنز  پر  اپنی ویڈیو (چاہے وہ کسی دینی مواد پر مشتمل ہو) اَپ لوڈ کرتا ہے، تو ایپ کی طرف سے اس کی ویڈیو کے ساتھ اشتہارات بھی چلائے جاتے ہیں، اور اس کے پاس ان اشتہارات کو روکنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ اور ان اشتہارات میں تصاویر، موسیقی، فحاشی و عریانی  پر مبنی اشتہارات بھی بکثرت ہوتے ہیں،  بلکہ جتنا زیادہ آپ کی ویڈیو  دیکھی  جائے گی؛ اتنے ہی زیادہ مذکورہ ایپ آپ کی ویڈیو کے ساتھ اشتہارات چلا کر کمائے گی۔ تو چوں کہ  یہ اشتہارات اکثر  ناجائز امور پر مبنی ہوتے ہیں، لہٰذاکوئی بھی ویڈیو  اَپ لوڈ کرنے میں ان ناجائز امور میں تعاون پایا جاتا ہے، اس تعاون کی بنا پر بھی ویڈیو اَپ لوڈ کرنے سے گریز کرنا  چاہیے۔

5- نیز اگر  "ٹک ٹاک" یا "اسنیک ویڈیو"ان اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدن میں  ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والے کو بھی شریک کرتی ہے تو یہ نفع لینا بھی ناجائز ہوگا۔

واضح رہے کہ  ایڈ کے  ذریعہ کمائی  کی صورت  شرعًا اجارہ کا معاملہ  ہے جو   مذکورہ  ایپ اور  ویڈیو   اَپ لوڈ  کرنے والے یا  اکاؤنٹ ہولڈر   کے درمیان ہوتا ہے۔  "ایپ"     اکاؤنٹ ہولڈر  کو اس کے پیج/ چینل وغیرہ  کے استعمال یا ویڈیو پر  (ایڈ نشر کرنے کی صورت میں)   اجرت  دیتا ہے۔ یہ  اجرت  مندرجہ   ذیل خرابیوں  کی  وجہ  سے  حلال نہیں  ہے:

الف)  ایپ کو  اختیار  ہوتا ہے کہ  وہ کسی قسم كا بھی ایڈ چلائے، ان میں اکثر ایڈ   ذی  روح  کی  تصاویر  پر  مبنی  ہوتی  ہیں اور  سائل کو انہیں ایڈز کی اجرت ملتی ہے، لہذا یہ اجرت کا معاہدہ  تعاون على الاثم  ہونے کی وجہ سے ناجائز  ہوگا اور کمائی بھی حلال  نہیں ہوگی۔

ب)  ایسی صورتوں میں عموماً اجرت مجہول ہوتی ہے؛ کیوں کہ ایپ والے کوئی متعین اجرت نہیں طے کرتے،  بلکہ  ویڈیو ز پر چلنے والے اشتہارات کے ذریعے" اپنی کمائی" کا  خاص فیصد اجرت کے طور پر  طے کرتے ہیں اور ایپ  کی کل اجرت مجہول ہوتی ہے تو  اس کا    وہ مخصوص فیصد بھی مجہول ہوتا ہے۔  حالانکہ چینل کے استعمال کی اجرت کا تعلق وقت کے ساتھ ہونا چاہیے یعنی جتنی دیر اس پر ایڈ چلے اس حساب سے اجرت ملے؛ لہذا اگر چینل پر چلنے والے ایڈز اگر سب کے سب  شرعی دائرہ کے اندر بھی ہوں تب بھی  مذکورہ بالا صورت میں یہ معاملہ شرعًا اجارہ فاسد ہوگا اور اجرت حلال نہیں ہوگی۔

(نوٹ: ٹک ٹاک اور اسنیک ویڈیو کے ذریعے کمائی کے متعلق  مزید تفصیلات  سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک ملاحظہ  فرما سکتے ہیں:

یوٹیوب چینل بنانا اور ویڈیوز اَپ لوڈ کر کے پیسے کمانے کا حکم | جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (banuri.edu.pk))

مندرجہ ذیل لنک بھی ملاحظہ فرمائیں:

اسنیک ویڈیو (Snack Video) ایپلی کیشن کا استعمال اور اس سے پیسے کمانے کا حکم | جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (banuri.edu.pk)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201522

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں