بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی نیت


سوال

تراویح کی نیت کیسے باندھیں؟

جواب

اگر کوئی امام کے پیچھے تراویح پڑھ رہا ہے تو اس طرح نیت کرے: "نیت کرتا ہوں میں دو رکعت نمازِ تراویح کی پیچھے اِس امام کے"، اور اگر تنہا تراویح پڑھ رہا ہو تو یوں نیت کرے: "نیت کرتا ہوں میں دو رکعت نمازِ تراویح"، غرض یہ کہ ہر دو رکعت کی نیت کرے، یہی بہتر ہے، لیکن اگر بیس رکعتوں کی نیت ایک ساتھ کرلی تو بھی تراویح ہو جائے گی، لیکن ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔ نیزنیت  دل کے ارادے کا نام ہے، اس کے لیے زبان سے کچھ کہنا ضروری نہیں، جب  دل میں تراویح کے ارادے سے نماز شروع کی تو یہی نماز تراویح کی نیت ہے، مخصوص الفاظ کے ساتھ نیت کرنا  ضروری نہیں ہے۔

تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری ویب سائٹ پر موجود فتوی بعنوان: تراویح کی نیت کرنا

المحيط البرہانی میں ہے:

"نوع آخر في نية التراويح
إذا ‌نوى ‌التراويح أو سنة الليل (أو) الوقت، أو قيام الليل في النيتين يجوز وصار كما إذا نوى الظهر أو فرض الوقت، فإنه يجوز وإن نوى صلاة مطلقة، أو نوى تطوعا فحسب، اختلف المشايخ فيه، ذكر بعض المتقدمين أنه لا يجوز؛ لأنها سنة والسنة لا تتأدى بنية التطوع أو بنية الصلاة المطلقة روى الحسن عن أبي حنيفة رحمة الله عليهما ذلك في ركعتي الفجر، أو يقول: هذه الصلاة مخصوصة كالمكتوبات، فلا تتأدى بمطلق النية ولا بنية التطوع كالمكتوبات، وأكثر المتأخرين على أن التراويح وسائر السنن تتأدى بمطلق النية، لأنها نافلة لكن واظب عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم والنوافل تتأدى بمطلق النية، والاحتياط في التراويح أن ينوي التراويح، أو بنية الوقت أو قيام الليل، وفي سائر السنن الاحتياط أن ينوي الصلاة متابعا لرسول الله عليه السلام."

(الفصل الثالث عشر في التراويح و الوتر، مسائل التراويح،  ج1، ص459، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"أقول: ذكر ذلك في الخانية في باب صلاة التراويح فقال: إن ‌نوى ‌التراويح أو سنة الوقت أو قيام الليل في رمضان جاز، وإن نوى الصلاة أو صلاة التطوع اختلف المشايخ فيه كاختلافهم في سنن المكتوبات. قال بعضهم: يجوز أداء السنن بذلك. وقال بعضهم: لا يجوز، وهو الصحيح لأنها صلاة مخصوصة فيجب مراعاة الصفة للخروج عن العهدة، وذلك بأن ينوي السنة أو متابعة النبي - صلى الله عليه وسلم - كما في المكتوبة، فعلى هذا إذا صلى التراويح مقتديا بمن يصلي المكتوبة أو بمن يصلي نافلة غير التراويح اختلفوا فيه. والصحيح أنه لا يجوز اه ."

(باب الإمامة، ج1، ص590، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101577

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں