بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی نیت کرنا


سوال

’’ تراویح کی نیت کرنا‘‘

جواب

اگر آپ کے سوال کا مقصد تراویح کی نیت کرنے کا طریقہ معلوم کرنا ہے تو تنہا نماز پڑھنے کی صورت میں  اس طرح نیت کی جائے ’’ میں دو رکعت تراویح کی نماز پڑھنے کی نیت کرتا ہوں‘‘اور اگر صرف یہ نیت کی جائے کہ ’’ رمضان کا قیام اللیل یا تراویح یا سنت نماز  پڑھتا ہوں‘‘ تو اس سے بھی تراویح کی نماز ادا ہوجائے گی۔

اور امام کی اقتداء میں تراویح ادا کرتے ہوئے یوں نیت کی جائے ’’ میں دو رکعت تراویح کی نماز امام کے پیچھے  اقتداء کرکے پڑھ رہا  ہوں‘‘نیز یہ نیت کہ ’’ جو نماز امام پڑھ رہا ہے اس کی نیت کرتا ہوں‘‘  سے بھی نماز ادا ہوجائے گی۔ 

نیز تراویح کی نماز میں ہر دو رکعت پر الگ الگ نیت کرنا افضل ہے، اور بیس رکعتوں کے لیے شروع ہی میں ایک نیت کرلینا بھی کافی ہے لیکن یہ افضلیت کے خلاف ہے۔ یاد رہے کہ نیت  چونکہ دل کے ارادے کا نام ہے لہذا تراویح پڑھتے ہوئے اگر دل میں یہ  ہو کہ تراویح پڑھ رہا ہوں تو  اتنی نیت بھی کافی ہے۔ 

’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع‘‘ میں ہے:

"ومنها نية التراويح أو نية قيام رمضان، أو نية سنة الوقت.
ولو نوى الصلاة مطلقاً، أو نوى التطوع، قال بعض المشايخ: لايجوز؛ لأنها سنة والسنة لاتتأدى بنية مطلق الصلاة، أو نية التطوع واستدلوا بما روى الحسن عن أبي حنيفة أن ركعتي الفجر لاتتأدى إلا بنية السنة، وقال عامة مشايخنا: إن التراويح وسائر السنن تتأدى بمطلق النية؛ ولأنها وإن كانت سنةً لاتخرج عن كونها نافلةً، والنوافل تتأدى بمطلق النية إلا أن الاحتياط أن ينوي التراويح، أو سنة الوقت، أو قيام رمضان احترازاً عن موضع الخلاف".

(كتاب الصلاة، فصل في سنن صلاة التراويح،1/ 288، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وهل يشترط أن يجدد في التراويح ‌لكل ‌شفع نية؟ ففي الخلاصة: الصحيح نعم لأنه صلاة على حدة وفي الخانية: الأصح لا، عين الكل بمنزلة صلاة واحدة كذا في التتارخانية. وظاهره أن الخلاف في أصل النية ويظهر لي التصحيح الأول لأنه بالسلام خرج من الصلاة حقيقة فلا بد في دخوله فيها من النية، ولا شك أنه الأحوط؛ خروجا من الخلاف، نعم رجح في الحلية الثاني إن نوى التراويح كلها عند الشروع في الشفع الأول كما لو خرج من منزله يريد صلاة الفرض مع الجماعة ولم تحضره النية لما انتهى إلى الإمام."

(كتاب الصلاة، باب الوتر و النوافل، مبحث صلاة التراويح، 2/ 44، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309100680

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں