بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی کتنی رکعات ہیں؟


سوال

نماز تراویح  کی کل کتنی رکعتیں ہیں؟  اس معاملہ میں بہت زیادہ اختلاف ہے، یہ فرما دیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں  تراویح ادا کیں ؟ اور خلفاء  راشدین رضی اللہ عنہم  سے کتنی رکعتیں  ثابت ہیں ؟

جواب

 تراویح کی بیس رکعات  ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور یہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا، البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین روز تراویح کی باقاعدہ امامت بھی فرمائی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  اس اندیشہ سے  جماعت  کے ساتھ ادا کرنا  ترک کردیا کہ کہیں یہ نماز امت پر  فرض نہ ہوجائے اور صحابہ کرام کو اپنےاپنے گھروں میں انفرادی طور پر نماز پڑھنے کی تاکید فرمادی اور خود بھی وفات تک اس کو گھر میں ہی پڑھتے رہے ۔

چنانچہ  مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعةً سوی الوتر".

(كتاب صلاة التطوع و الإمامة وأبواب متفرقة، كم يصلي في رمضان ركعة ٢/ ٢٨٦، ط: طیب اکیدمي ) 

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ حدیث اگرچہ خبر واحد ہے،لیکن  یہ حدیث صحیح  اور قوی ہے ،اس کی صحت اور قوت کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور تمام امت نے اسے قبول کیا ہےاور اس پر سب کا اجماع ہوچکا ہے ،چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت بیس رکعت تراویح کا اہتمام مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کروایا تو ان پر کسی نے نکیر نہیں کی، بلکہ تمام صحابہ  کرام نے باجماعت تراویح کے اہتمام پر اتفاق کیا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کابیس رکعات پراتفاق یعنی اجماعِ صحابہ اس بات کی شہادت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح بیس رکعات ہی پڑھائی ہیں۔

نیز اصولِ حدیث کا ضابطہ ہے کہ دین اور آخرت سے متعلق امور میں اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوئی فضیلت یا وعید یا تعداد وغیرہ متعین کرکے بتائیں، تو وہ اپنی طرف سے نہیں بتاتے، بلکہ اس بارے میں ان کے پاس کوئی اصل اور دلیل ضرور ہوتی ہے جو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوتی ہے، لہٰذا اس طرح کے امور سے متعلق صحابی کا اپنا قول بھی حدیث مرفوع کا درجہ رکھتاہے، کیوں کہ صحابہ کرام دین کے احکامات میں  اپنی طرف سے ہرگز اضافہ نہیں کرسکتے۔

علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفاءِ راشدین کی سنت کی پیروی کا بھی حکم دیا ہے، اس اعتبار سے بھی اگر کوئی خلیفہ راشد کوئی رسمِ خیر جاری کریں تو اس کی اتباع خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے، اور ان کی سنت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی سنت کہا جائے گا۔

اور صحابہ کرام کے اجماع سے لے کر آج تک تمام فقہاءِ کرام اور امتِ مسلمہ کا اجماع ہے، اور تمام فقہاء کے نزدیک تراویح بیس رکعات سنت ہے، اور بلاعذر اس کاتارک گناہ گار ہے، اور بیس رکعت تراویح کا انکارنصوصِِ شرعیہ سے ناواقفیت،  صحابہ کرام کے اجماع، جمہور فقہا ئے کرام کی مخالفت اور گمراہی ہے۔ اور   تہجد آٹھ رکعات ہیں اور تراویح بیس رکعات ہیں، اس لئے تراویح کو آٹھ رکعات کہنا اور آٹھ رکعات ہی پڑھنا  اجماعِ  صحابہ اور اجماعِ امت کے خلاف ہے۔

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"عن زيد بن ثابت: أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير فصلى فيها ليالي حتى اجتمع عليه ناس ثم فقدوا صوته ليلة وظنوا أنه قد نام فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم. فقال: ما زال بكم الذي رأيت من صنيعكم حتى خشيت أن يكتب عليكم ولو كتب عليكم ما قمتم به. فصلوا أيها الناس في بيوتكم فإن أفضل صلاة المرء في بيته إلا الصلاة المكتوبة."

(كتاب الصلاة,باب قيام شهر رمضان,الفصل الأول,ص:114 ط:قديمي)

مرقاةاالمفاتیح   میں ہے:

"لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً."

(كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان، ٣/ ٣٨٢، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"التراويح سنة مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين".

(كتاب الصلاة، مبحث صلاة التراويح، ٢/ ٤٣، ط: سعيد)

"عمدۃ القاری شرح صحیح للبخاری" میں ہے:

"روى عبد الرزاق في (المصنف) عن داود بن قيس وغيره عن محمد بن يوسف (عن السائب بن يزيد: أن عمر بن الخطاب، رضي الله تعالى عنه، جمع الناس في رمضان على أبي بن كعب، وعلى تميم الداري على إحدى وعشرين ركعةً يقومون بالمئين وينصرفون في بزوغ الفجر، قلت: قال ابن عبد البر: هو محمول على أن الواحدة للوتر. وقال ابن عبد البر: وروى الحارث بن عبد الرحمن بن أبي ذباب عن السائب بن يزيد، قال: كان القيام على عهد عمر بثلاث وعشرين ركعةً. قال ابن عبد البر: هذا محمول على أن الثلاث للوتر. وقال شيخنا: وما حمله عليه في الحديثين صحيح، بدليل ما روى محمد بن نصر من رواية يزيد بن خصيفة عن السائب بن يزيد أنهم كانوا يقومون في رمضان بعشرين ركعةً في زمان عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه. وأما أثر علي رضي الله تعالى عنه، فذكره وكيع عن حسن بن صالح عن عمرو بن قيس عن أبي الحسناء عن علي رضي الله تعالى عنه، أنه أمر رجلاً يصلي بهم رمضان عشرين ركعةً. وأما غيرهما من الصحابة فروي ذلك عن عبد الله بن مسعود، رواه محمد بن نصر المروزي قال: أخبرنا يحيى بن يحيى أخبرنا حفص بن غياث عن الأعمش عن زيد بن وهب، قال: (كان عبد الله بن مسعود يصلي لنا في شهر رمضان) فينصرف وعليه ليل، قال الأعمش: كان يصلي عشرين ركعةً ويوتر بثلاث). وأما القائلون به من التابعين: فشتير بن شكل، وابن أبي مليكة والحارث الهمداني وعطاء بن أبي رباح، وأبو البحتري وسعيد بن أبي الحسن البصري أخو الحسن وعبد الرحمن ابن أبي بكر وعمران العبدي. وقال ابن عبد البر: وهو قول جمهور العلماء، وبه قال الكوفيون والشافعي وأكثر الفقهاء، وهو الصحيح عن أبي بن كعب من غير خلاف من الصحابة".

(8/246، باب فضل من قام رمضان، ط: دارالفکر بیروت)

مزید تفصیل کے لیے جامعہ کے ترجمان رسالہ ”ماہنامہ بینات“ میں اس موضوع پر تفصیلی مضمون ملاحظہ فرمائیں:

رکعاتِ تراویح بیس یا آٹھ۔۔۔۔۔!

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100208

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں