بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حیات برزخی کے ساتھ حیات ہیں‘‘ ایسا عقیدہ رکھنے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم


سوال

کسی  شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ  ہیں حیات برزخی کے ساتھ تو کیا اس امام کے پیچھے نماز ہوتی ہے ؟ 

(وضاحت) حیات برزخی سے یہ مراد لیتے ہیں کہ یہ ایک ایسی زندگی ہے جو صرف اللہ ہی جانتے ہیں جس طرح قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے ولکن لاتشعرون اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر مبارک میں یہی زندگی عطا کی ہے، لیکن دنیوی زندگی ختم ہوچکی ہے، اب دنیوی زندگی پر زندہ نہیں ہیں۔ 

جواب

 اگر  کوئی شخص،  اہلِ سنت والجماعت کے مسلمہ بدیہی عقیدہ کے  مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ کی قبر  مبارک میں حیات کا انکار  کرتا ہےتو  یہ اجماعی عقیدے کا انکار ہے، جس کی بنا  پر ایسے نظریات  کے حامل افراد اہلِ سنت والجماعت سے خارج  ہیں، کیوں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے بارے میں اہلِ سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات، حیاتِ دنیوی کی سی ہے بلامکلف ہونے کے، اور یہ حیات مخصوص ہے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء کے  ساتھ، یہ حیات خالص برزخی حیات نہیں جو  تمام ایمان داروں، بلکہ تمام انسانوں کو حاصل ہے، لہذا اس اجماعی عقیدے کے خلاف عقیدہ رکھنے والے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔

المہند علی المفند (معروف بہ عقائدِ اہلِ سنت والجماعت) میں ہے:

"السوال الخامس: ما قولكم فى حياة النبي عليه الصلوة والسلام في قبره الشريف، هل ذلك أمر مخصوص به أم مثل سائر المؤمنين رحمة الله عليهم حياة برزخية؟

الجواب : عندنا وعند مشائخنا حياة حضرة الرسالة صلى الله عليه وسلم حي في قبره الشريف وحياته صلى الله عليه وسلم دنيوية من غير تكليف وهي مختصة به صلى الله عليه وسلم وبجميع الأنبياء صلوات الله عليهم والشهداء لابرزخية كماهي حاصلة لسائر المؤمنين بل لجميع الناس كما نص عليه العلامة السيوطي في رسالته "إنباء الأذكياء بحياة الأنبياء" حيث قال: قال الشيخ تقي الدين السبكي حياة الأنبياء والشهداء فى القبر كحياتهم في الدنيا ويشهد له صلاة موسى عليه السلام في قبره فان الصلاة تستدعى جسداً حياً إلى آخر ماقال. فثبت بهذا أن حياته دنيوية برزخية لكونها في عالم البرزخ. ولشيخنا شمس الإسلام والدين محمد قاسم العلوم على المستفيدين قدس الله سره العزيز فى هذا المبحث رسالة مستقلة دقيقة المأخذ بديعة المسلك لم يُر مثلها قد طبعت وشاعت في الناس واسمها ”آب حيات أى ماء الحياة...."

(السوال الخامس، ص:21 ،22، ط: دارالاشاعت)

جواہر الفتاوی میں ہے:

’’حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا عقیدہ نصوصِ شرعیہ سے اور اجماعِ امت سے ثابت ہے، باتفاق علماءِ اہل السنۃ والجماعۃ خاص کر اکابرینِ علماءِ دیوبند، اس جماعتِ دیوبندیہ کے لیے معیار قرار دیتے ہیں، اس کے خلاف منکرینِ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم و الانبیاء والشہداء کو مبتدع اور اہلِ سنت و الجماعت سے خارج قرار دیتے ہیں۔‘‘

(جواہر الفتاوٰی جدید، ج:1، ص:432، ط:اسلامی کتب خانہ)

حياة الأنبياء في قبورهم للبيهقي میں ہے:

"أن الله جل ثناؤه رد إلى الأنبياء عليهم السلام أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء."

(بیان قول النبي صلی اللہ علیه وسلم «لا تفضلوا بين أنبياء الله تعالی، ص:110، ط:مکتبة العلوم والحكم)

شرح الشفا لملّا علی القاری میں ہے:

"(عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رسول الله صلى الله تعالى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أردّ عليه) أي على من سلم علي (السّلام) مفعول أرد والحديث رواه أبو داود وأحمد والبيهقي وسنده حسن وظاهره الإطلاق الشامل لكل مكان وزمان ومن خص الرد بوقت الزيارة فعليه البيان والمعنى أن الله سبحانه يرد روحه الشريف عن استغراقه المنيف ليرد على مسلمه جبرا لخاطره الضعيف وإلا فمن المعتقد المعتمد أنه صلى الله تعالى عليه وسلم حي في قبره كسائر الأنبياء في قبورهم وهم أحياء عند ربهم وأن لأرواحهم تعلقا بالعالم العلوي والسلفي كما كانوا في الحال الدنيوي فهم بحسب القلب عرشيون وباعتبار القالب فرشيون."

(الباب الرابع فی حکم الصلوۃ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم، فصل :فی تخصيصہ عليہ الصلاة والسلام بتبليغ صلاة من صلى عليہ صلاة أو سلم من الأنام، ج:2، ص:143، ط:دارالکتب العلمیۃ)

عمدة القاری شرح صحيح البخاری میں ہے:

" من أنكر الحياة في القبر، وهم المعتزلة ومن نحا نحوهم."

(کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لو كنت متخذا خليلا قاله أبو سعيد، ج:16/ 185، ط:داراحیاء التراث العربی)

اس مسئلہ کی مزید توضیح و تفصیل کے لیے نیچے دیے گئے لنک میں سابق رئیس دارالافتاء مفتی محمد عبدالسلام چاٹگامی رحمہ اللہ کا تفصیلی فتوی ملاحظہ کیجیے:

حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حیات انبیاء علیہم السلام سے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101654

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں