بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تابوت سکینہ اور ہیکل سلیمانی کہاں ہیں ؟


سوال

تابوت سکینہ اور ہیکل سلیمانی لوگوں میں جو مشہور ہے ،یہودی چاہتا ہے ان کو اپنے قبضے میں لیں ۔تو کیا یہ بیت المقدس کے اردو وگرد یا اس زمین کے نیچے یہ موجود ہے ؟قرآن و حدیث میں اس متعلق کیا رہنمائی ملتی ہے ۔

جواب

ہیکل سلیمانی ، حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ عبادت گاہ کا نام تھا، جسے ایک ظالم بادشاہ بخت نصر نے تخت و  تاراج کردیا تھا، اور تابوت سکینہ وہ تابوت کہلاتا ہے جس میں حضرت موسی وہارون علیہما السلام اور دیگرانبیائے کرام علیہم السلام کے تبرکات تھے ،بنی اسرائیل اس کو لڑائیوں میں مقدم رکھتے اور کامیاب ہوتے تھے۔اس تابوت کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے ۔

ہیکل سلیمانی کے خاص مقام کی تعیین یا تابوت سکینہ اس وقت کہاں ہیں ،  اس کا علم اللہ تعالی ہی کو ہے۔ قرآن و حدیث میں جہاں تابوت سکینہ کا ذکر ہے وہاں اس بارے میں بحث نہیں کی گئی کہ یہ کہاں ہے۔ قرآن اور حدیث نے اس کے مقام کی تعیین کو مبہم چھوڑا  ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ امت کا دنیا اور آخرت کا کوئی معاملہ  اس تابوت یا ہیکل کے مقام کو جاننے پر موقوف نہیں ہے؛  لہذا امت کو اس کے مقام کی  کھوج میں نہیں پڑنا چاہیے،  بلکہ جو امور اللہ نے مسلمان کے ذمہ کیے ہیں،  ان کی بجاآوری کی فکر میں لگنا چاہیے۔مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیں :

تابوتِ سکینہ اور ہیکلِ سلیمانی کی معلومات

’’معارف القرآن‘‘  میں مفتی  محمد شفیع  صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"{اَنْ یَّاْتِیَكُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَكِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ... الآية}بنی اسرائیل میں ایک صندوق چلا آتا تھا، اس میں برکات تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وغیرہ انبیاء (علیہم السلام) کے، بنی اسرائیل اس صندوق کو لڑائی میں آگے رکھتے اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے فتح دیتا، جب جالوت بنی اسرائیل پر غالب آیا تو یہ صندوق بھی وہ لے گیا تھا، جب اللہ تعالیٰ کو صندوق کا پہنچانا منظور ہوا تو یہ کیا کہ وہ کافر جہاں صندوق کو رکھتے وہیں وباء اور بلاء آتی، پانچ شہر ویران ہوگئے، ناچار ہو کردو بیلوں پر اس کو لاد کر ہانک دیا، فرشتے بیلوں کو ہانک کر طالوت کے دروازے پر پہنچا گئے، بنی اسرائیل اس نشانی کو دیکھ کر طالوت کی بادشاہت پر یقین لائے اور طالوت نے جالوت پر فوج کشی کردی اور موسم نہایت گرم تھا"۔ 

(معارف القرآن ،ج: 1، ص: 606، ط: معارف القرآن کراچی)

تفسیر قرطبی  میں ہے:

"وقال لهم نبيهم إن آية ملكه أن يأتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم وبقية مما ترك آل موسى وآل هارون تحمله الملائكة إن في ذلك لآية لكم إن كنتم مؤمنين." (سورة ابقرة : الآية:248)

"قوله تعالى: و قال لهم نبيهم إن آية ملكه أن يأتيكم التابوت فيه سكينة من ربكم وبقية مما ترك آل موسى وآل هارون تحمله الملائكة إن في ذلك لآية لكم إن كنتم مؤمنين (248) قوله تعالى: (وقال لهم نبيهم إن آية ملكه أن يأتيكم التابوت) إتيان التابوت، والتابوت كان من شأنه فيما ذكر أنه أنزله الله على آدم عليه السلام، فكان عنده إلى أن وصل إلى يعقوب عليه السلام، فكان في بني إسرائيل يغلبون به من قاتلهم حتى عصوا فغلبوا على التابوت غلبهم عليه العمالقة: جالوت وأصحابه في قول السدي، وسلبوا التابوت منهم. قلت: وهذا أدل دليل على أن العصيان سبب الخذلان، وهذا بين. قال النحاس: والآية في التابوت على ما روي أنه كان يسمع فيه أنين، فإذا سمعوا ذلك ساروا لحربهم وإذا هدأ الأنين لم يسيروا ولم يسر التابوت. وقيل: كانوا يضعونه في مأزق الحرب فلا تزال تغلب حتى عصوا فغلبوا وأخذ منهم التابوت وذل أمرهم، فلما رأوا آية الاصطلام و ذهاب الذكر، أنف بعضهم وتكلموا في أمرهم حتى اجتمع ملؤهم أن قالوا لنبي الوقت: ابعث لنا ملكا، فلما قال لهم: ملككم طالوت راجعوه فيه كما أخبر الله عنهم، فلما قطعهم بالحجة سألوه البينة على ذلك، في قول الطبري. فلما سألوا نبيهم البينة على ما قال، دعا ربه فنزل بالقوم الذين أخذوا التابوت داء بسببه، على خلاف في ذلك. قيل: وضعوه في كنيسة لهم فيها أصنام فكانت الأصنام تصبح منكوسة. وقيل: وضعوه في بيت أصنامهم تحت الصنم الكبير فأصبحوا وهو فوق الصنم، فأخذوه وشدوه إلى رجليه فأصبحوا وقد قطعت يدا الصنم ورجلاه وألقيت تحت التابوت، فأخذوه وجعلوه في قرية قوم فأصاب أولئك القوم أوجاع في أعناقهم. وقيل: جعلوه في مخرأة قوم فكانوا يصيبهم الباسور «2»، فلما عظم بلاؤهم كيفما كان، قالوا: ما هذا إلا لهذا التابوت! فلنرده إلى بني إسرائيل فوضعوه على عجلة بين ثورين وأرسلوهما في الأرض نحو بلاد بني إسرائيل، وبعث الله ملائكة تسوق البقرتين «3» حتى دخلنا على بني إسرائيل، وهم في أمر طالوت فأيقنوا بالنصر، وهذا هو حمل الملائكة للتابوت في هذه الرواية. وروي أن الملائكة جاءت به تحمله وكان يوشع بن نون قد جعله في البرية، فروي أنهم رأوا التابوت في الهواء حتى نزل بينهم، قاله الربيع بن خيثم. وقال وهب بن منبه: كان قدر التابوت نحوا من ثلاثة أذرع في ذراعين. الكلبي: وكان من عود شمسار «4» الذي يتخذ منه الأمشاط. وقرأ زيد بن ثابت" التابوه" وهي لغته، والناس على قراءته بالتاء وقد تقدم. وروي عنه" التيبوت" ذكره النحاس. وقرأ حميد بن قيس" يحمله" بالياء."

(سورة البقرة ، ج: 3، ص: 248، ط: دار الكتب المصرية

المختصر في اخبار البشر ميں هے :

’’وخلاصة ما ذكر أن ‌هيكل ‌بيت ‌المقدس عمره سليمان بن داود وبقي عامراً حتى خربه بخت نصر وهو التخريب الأول، ثم عمره كورش، وهي عمارته الثانية، وبقي عامراً حتى خربه طيطوس التخريب الثاني، ثم تراجع للعمارة قليلا قليلا، وبقي عامراً حتى خربتة هلانة أم قسطنطين، وهو التخريب الثالث، ثم عمره عمر بن الخطاب، وهو عمارته الرابعة، ثم خرب ذلك وعمره الوليد بن عبد الملك، وهي عمارته الخامسة، وهو على ذلك إلى يومنا هذا.‘‘۔

(ج:1،ص؛38،ط:الحسینیۃ المصریۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100308

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں