بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسٹاک ایکسچینج میں پیسے لگانے کا حکم


سوال

اسٹاک ایکسچینج میں پٹرولیم مصنوعات اور سونے میں پیسے لگانا کیسا ہے؟ جب کہ تیل یا سونا آپ کی ملکیت میں نہیں آتا، اور ایسی کمپنیوں کے حصص خریدنا کیسا ہے؟ کیا کوئی جائز صورتِ حال ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  پٹرولیم مصنوعات اور سونے  کے جو  شیئرز  خریدے جاتے ہیں وہ خریدار کی ملکیت میں نہیں آتے ، لہذا ان کی خرید و فروخت شرعا درست نہیں، شیئرز کی خریدوفروخت کے جائز ہونے  کے لیے چند شرائط کی کا لحاظ رکھنا شرعاً ضروری ہے، جس کی تفصیل درج ذیل لنک میں موجود ہے؛

اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنا / شیئرز کی خرید و فروخت / ذخیرہ اندوزی کرنا

جو کمپنیاں درج بالا لنک میں دی گئی شرائط کی رعایت رکھتی ہوں  ان کے  شیئرز خریدنا شرعا درست ہے، اور جو کمپنیاں دی گئی  شرائط کی رعایت نہ رکھیں ان کے شیئرز  خریدنا درست نہیں۔

الجوهرة النيرة میں ہے:

"قوله ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه مناسبة هذه المسألة بالمرابحة والتولية أن المرابحة إنما تصح بعد القبض ولا تصح قبله."

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ج:1، ص:210، ط: المطبعة الخيرية)

جواہر الفتاوی میں ہے:

"مثلاً آدمی جس حصص کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے، اس پر شرعی طریقہ پر قابض ہو، اور دوسرے کو تسلیم و حوالہ کرنے پر قادر ہو۔

واضح رہے کہ قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے شیئرز کا خرید نے  والے کے نام پر رجسٹر یا الاٹ ہونا ضروری ہے، رجسٹر یا الاٹ ہونے سے پہلے زبانی وعدہ یا غیر رجسٹر شدہ حصص کی خرید و فروخت کمی بیشی کے ساتھ جائز نہ ہوگی، کیوں کہ ایسے حصص درحقیقت رسیدیں ہیں، کمپنی کے واقعی حصے نہیں، اس واسطے نفع و نقصان کا مالک صرف رجسٹر شدہ اسامی سمجھے جاتے ہیں، مثلاً ایک شخص نے فی شیئر دس روپے کرکے سو شیئر خریدنے کے لیے کسی سے کہہ دیا، اور یہ بھی کہا ہے کہ ہفتہ بعد پیسے دے کر شیئر وصول کرے گا، تو ایسے حالات میں یہ خرید و فروخت صحیح نہیں ہوئی ۔۔۔ لہذا ایسے شیئر کی کمی بیشی کے ساتھ  خرید و فروخت جائز نہیں ہے، حرام ہے، البتہ یہ صحیح ہے کہ پہلے شیئرز رجسٹر ہوجائے، اور قیمت بھی ادا کردی جائے، یا قیمت اب تک ادا کرنا باقی ہے، شیئرز وصول کرلیے ہیں، تو اس صورت میں حصص کو بیچ کر منافع لینا جائز ہے۔"

(ج:، ص:72،73، ط: اسلامی کتب خانہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101683

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں