بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنا / شیئرز کی خرید و فروخت / ذخیرہ اندوزی کرنا


سوال

1- اسٹاک ایکچینج میں سرمایہ کاری کرنا جائز ہے یا نہیں؟

2- مختلف کمپنیوں کے شیئرز خریدنا اور اس پر منافع وصول کرنا کیا  درست ہے؟

3- اسی طرح سے شیئرز کی خرید و فروخت اوپن مارکیٹ، یعنی کمپنی کے علاوہ دوسرے انویسٹروں سے خرید و فروخت کرنا درست ہے؟ یعنی کہ کسی کمپنی کے شیئرز خریدیں، اور کچھ وقت انتظار کرنے کے بعد جب اس کی قیمت بڑھ جائے تو اسے فروخت کردیا جائے، کیا ایسا کرنا درست ہے؟

4- کسی بھی کاروبار میں مال اسٹاک کرنا اور قیمت بڑھ جانے پر فروخت کرنا کیا صحیح ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قدیم زمانے میں بھی لوگوں میں مشترکہ کاروبار و شراکت داری کرنے کا رواج عام تھا، اور کاروبار میں شریک افراد اپنے حصے دوسروں کو فروخت بھی کیا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ مشترکہ کاروبار میں شریک افراد کے حصص (شیئرز) کی خرید و فروخت کی شرائط و اَحکام کتبِ فقہ میں  ملتے ہیں، لہذا وسیع سرمایہ کاری کے اس دور میں شیئرز کی خرید و فروخت  میں ان ہی شرائط و احکام کی پابندی ضروری ہے، اس لیے کہ شیئرز کی خرید و فروخت درحقیقت شراکت داری کی ہی ایک شکل ہے۔

کسی کمپنی کے شیئرز درحقیقت اس کمپنی کے اثاثوں و املاک میں شیئر ہولڈرز کی ملکیت کے ایک متناسب حصہ کی نمائندگی کرتے ہیں، یعنی جب کوئی کسی کمپنی کے شیئرز خریدتا ہے تو وہ اس کمپنی کے اثاثوں و املاک میں اپنے شیئر کے بقدر حصہ کا مالک بن جاتا ہے، اور اس کمپنی کے کاروبار میں شرعًا شریک ہوتا ہے، جس کی وجہ سے تجارتی نفع و نقصان میں اپنے شیئر کے بقدر شریک ہوتا ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أَمَّا شَرِكَةُ الْعِنَانِ فَهِيَ أَنْ يَشْتَرِكَ اثْنَانِ فِي نَوْعٍ مِنْ التِّجَارَاتِ بُرٍّ أَوْ طَعَامٍ أَوْ يَشْتَرِكَانِ فِي عُمُومِ التِّجَارَاتِ وَلَا يَذْكُرَانِ الْكَفَالَةَ خَاصَّةً، كَذَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ، وَصُورَتُهَا أَنْ يَشْتَرِكَ اثْنَانِ فِي نَوْعٍ خَاصٍّ مِنْ التِّجَارَاتِ أَوْ يَشْتَرِكَانِ فِي عُمُومِ التِّجَارَاتِ وَلَا يَذْكُرَانِ الْكَفَالَةَ وَالْمُفَاوَضَةَ فِيهَا فَتَضَمَّنَتْ مَعْنَى الْوَكَالَةِ دُونَ الْكَفَالَةِ حَتَّى تَجُوزَ هَذِهِ الشَّرِكَةُ بَيْنَ كُلِّ مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ التِّجَارَةِ، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ. فَتَجُوزُ هَذِهِ الشَّرِكَةُ بَيْنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْبَالِغِ وَالصَّبِيِّ الْمَأْذُونِ وَالْحُرِّ وَالْعَبْدِ الْمَأْذُونِ فِي التِّجَارَةِ وَالْمُسْلِمِ وَالْكَافِرِ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. وَفِي التَّجْرِيدِ " وَالْمُكَاتَبِ "، كَذَا فِي التَّهْذِيبِ. .... وَأَمَّا شَرْطُ جَوَازِهَا فَكَوْنُ رَأْسِ الْمَالِ عَيْنًا حَاضِرًا أَوْ غَائِبًا عَنْ مَجْلِسِ الْعَقْدِ لَكِنْ مُشَارًا إلَيْهِ، وَالْمُسَاوَاةُ فِي رَأْسِ الْمَالِ لَيْسَتْ بِشَرْطٍ وَيَجُوزُ التَّفَاضُلُ فِي الرِّبْحِ مَعَ تَسَاوِيهِمَا فِي رَأْسِ الْمَالِ، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ."

(كتاب الشركة، الْبَابُ الثَّالِثُ فِي شَرِكَةِ الْعِنَانِ، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي تَفْسِيرِهَا وَشَرَائِطِهَا وَأَحْكَامِهَا، ٢ / ٣١٩، ط: دار الفكر)

لہذا شیئرزکی خریدوفروخت کے جائز ہونے میں مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا شرعاً ضروری ہے:

1-  جس کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت کی جارہی ہو، خارج میں اس کمپنی کا وجود آچکا  ہو، صرف کاغذی طور پر رجسٹرڈ نہ ہو؛ یعنی اس کمپنی کے کل اثاثے نقد کی شکل میں نہ ہوں، بلکہ اس کمپنی نے اپنے کچھ جامد اثاثے بنا رکھے ہوں، جیسے کمپنی کے لیے بلڈنگ بنالی ہو، یا زمین یا مشینری خرید لی ہو یا اس کے پاس تیار یا خام مال موجود ہو۔

البحر الرائق میں ہے:

"وَأَمَّا شَرَائِطُ الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ فَأَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا مَالًا مُتَقَوِّمًا مَمْلُوكًا فِي نَفْسِهِ وَأَنْ يَكُونَ مِلْكَ الْبَائِعِ فِيمَا يَبِيعُهُ لِنَفْسِهِ وَأَنْ يَكُونَ مَقْدُورَ التَّسْلِيمِ فَلَمْ يَنْعَقِدْ بَيْعِ الْمَعْدُومِ وَمَا لَهُ خَطَرُ الْعَدَمِ ... وَخَرَجَ بِقَوْلِنَا وَأَنْ يَكُونَ مِلْكًا لِلْبَائِعِ مَا لَيْسَ كَذَلِكَ فَلَمْ يَنْعَقِدْ بَيْعُ مَا لَيْسَ بِمَمْلُوكٍ لَهُ، وَإِنْ مَلَكَهُ بَعْدَهُ."

(كتاب البيع، شَرْطُ الْعَقْدِ، ٥ / ٢٧٩ - ٢٨٠، ط: دار الكتاب الإسلامي)

2- کمپنی کا  سرمایہ  جائز و حلال ہو، اور اس کے شرکاء میں سودی کاروبار کرنے والے اداروں یا  افراد کا سرمایہ شامل نہ ہو، یعنی وہ شیئرز نہ تو کسی بینک کے ہوں، اور نہ کسی انشورنس کمپنی کے ہوں، اور نہ ہی اس کمپنی میں بینک، یا انشورنس یا جوا یا شراب یا کسی اور حرام چیز کا کاروبار کرنے والے اداروں کا سرمایہ شامل ہو۔

3- اس کمپنی نے  بینک سے سودی قرضہ نہ لیا ہوا ہو، وجہ اس کی یہ ہے کہ کمپنی کے ذمہ داران تجارت و سرمایہ کاری کرنے میں  شیئر ہولڈرز کے  شرعًا وکیل ہوتے ہیں،  جس طرح سے  خود  سود پر قرضہ لینا جائز نہیں اسی طرح سےکسی کو اس کام کے لیے وکیل بنانا بھی جائز نہیں۔

الفقه الإسلامي و ادلته میں ہے:

"وأما الموكل فيه (محل الوكالة): فيشترط فيه ما يأتي: ....

أن يكون التصرف مباحاً شرعاً: فلا يجوز التوكيل في فعل محرم شرعاً، كالغصب أو الاعتداء على الغير."

(الوكالة، شروط الوكالة، الموكل فيه، ٤ / ٢٩٩٩، ط: دار الفكر)

4- کمپنی کا کاروبار جائز و حلال ہو، یعنی وہ کمپنی  حرام اشیاء کے کاروبار نہ کرتی ہو، اور اس کا کاروبار نہ صرف حلال اشیاء پر مشتمل ہو، بلکہ شرعی اصولوں کے مطابق و شرائط فاسدہ وغیرہ سے پاک ہو،  جوئے، سٹے، شراب، سودی کاروبار میں ملوث نہ ہو، اس لیے کہ جس طرح حرام کاروبار خود کرنا ناجائز ہے، اسی طرح حرام کاروبار میں کسی اور کی معاونت کرنا، یا کسی کو اپنے وکیل بنانا بھی ناجائز ہے۔

فقه المعاملات میں ہے:

"يشترط في الموكل به - لصحة الوكالة - ثلاثة شروط:

(أحدها) أن يكون إتيانه سائغًا شرعًا.

وعلى ذلك فلايصح التوكيل بالعقود المحرمة والفاسدة والتصرفات المحظورة شرعًا؛ لأنّ الموكل لايملكه، فلايصحّ أن يفوضه إلى غيره، و لأن التوكيل نوع من التعاون، و التعاون إنما يجوز على البر والتقوى لا على الإثم والعدوان."

( الوكالة، المؤكل به، ١ / ١٠٦٧)

5- شیئرز کی خرید و فروخت میں، خرید و فروخت کی تمام شرائط کی پابندی ہو۔ (مثلاً: شیئرز خریدنے کے بعد وہ مکمل طور پر خریدار کی ملکیت میں  آجائیں، اس کے بعد انہیں آگے فروخت کیا جائے، خریدار کی ملکیت مکمل ہونے اور قبضے سے پہلے شیئرز آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا، اسی طرح فرضی خریدوفروخت نہ کی جائے)۔

جواہر الفتاوی میں ہے:

"مثلاً آدمی جس حصص کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے، اس پر شرعی طریقہ پر قابض ہو، اور دوسرے کو تسلیم و حوالہ کرنے پر قادر ہو۔

واضح رہے کہ قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے شیئرز کا خرید نے  والے کے نام پر رجسٹر یا الاٹ ہونا ضروری ہے، رجسٹر یا الاٹ ہونے سے پہلے زبانی وعدہ یا غیر رجسٹر شدہ حصص کی خرید و فروخت کمی بیشی کے ساتھ جائز نہ ہوگی، کیوں کہ ایسے حصص درحقیقت رسیدیں ہیں، کمپنی کے واقعی حصے نہیں، اس واسطے نفع و نقصان کا مالک صرف رجسٹر شدہ اسامی سمجھے جاتے ہیں، مثلاً ایک شخص نے فی شیئر دس روپے کرکے سو شیئر خریدنے کے لیے کسی سے کہہ دیا، اور یہ بھی کہا ہے کہ ہفتہ بعد پیسے دے کر شیئر وصول کرے گا، تو ایسے حالات میں یہ خرید و فروخت صحیح نہیں ہوئی ۔۔۔ لہذا ایسے شیئر کی کمی بیشی کے ساتھ  خرید و فروخت جائز نہیں ہے، حرام ہے، البتہ یہ صحیح ہے کہ پہلے شیئرز رجسٹر ہوجائے، اور قیمت بھی ادا کردی جائے، یا قیمت اب تک ادا کرنا باقی ہے، شیئرز وصول کرلیے ہیں، تو اس صورت میں حصص کو بیچ کر منافع لینا جائز ہے۔" ( ٣ / ٧٢ - ٧٣، ط: اسلامی کتب خانہ)

الجوهرة النيرة میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَمَنْ اشْتَرَى شَيْئًا مِمَّا يُنْقَلُ وَيُحَوَّلُ لَمْ يَجُزْ لَهُ بَيْعُهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ) مُنَاسَبَةُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ بِالْمُرَابَحَةِ وَالتَّوْلِيَةِ أَنَّ الْمُرَابَحَةَ إنَّمَا تَصِحُّ بَعْدَ الْقَبْضِ وَلَا تَصِحُّ قَبْلَهُ."

(كتاب البيوع، بَابُ الْمُرَابَحَةِ وَالتَّوْلِيَةِ، ١ / ٢١٠، ط: المطبعة الخيرية)

6- حاصل شدہ منافع کل کا کل شیئرز ہولڈرز میں تقسیم کیا جاتا ہو، (احتیاطی) ریزرو کے طور پر نفع کا کچھ حصہ محفوظ نہ کیا جاتا ہو، پس جو کمپنی کل منافع کو تمام شیئر ہولڈرز میں تقسیم نہ کرتی ہے، بلکہ منافع میں سے کچھ فیصد مثلاً 20 فیصد مستقبل کے ممکنہ نقصان کے خطرہ کے پیشِ نظر اپنے پاس محفوظ  کرلیتی ہو، اور منافع کا بقیہ 80 فیصد  شیئر ہولڈرز میں تقسیم کرتی ہو، اس کمپنی کے شیئرز خریدنا جائز نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أَمَّا شَرِكَةُ الْعُقُودِ فَأَنْوَاعٌ ثَلَاثَةٌ: شَرِكَةٌ بِالْمَالِ، وَشَرِكَةٌ بِالْأَعْمَالِ وَكُلُّ ذَلِكَ عَلَى وَجْهَيْنِ: مُفَاوَضَةٌ وَعِنَانٌ، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ. وَرُكْنُهَا الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ ... وَشَرْطُ جَوَازِ هَذِهِ الشَّرِكَاتِ كَوْنُ الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ عَقْدَ الشَّرِكَةِ قَابِلًا لِلْوَكَالَةِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ وَأَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ مَعْلُومَ الْقَدْرِ، فَإِنْ كَانَ مَجْهُولًا تَفْسُدُ الشَّرِكَةُ وَأَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ جُزْءًا شَائِعًا فِي الْجُمْلَةِ لَا مُعَيَّنًا فَإِنْ عَيَّنَا عَشَرَةً أَوْ مِائَةً أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ كَانَتْ الشَّرِكَةُ فَاسِدَةً، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ. وَحُكْمُ شَرِكَةِ الْعَقْدِ صَيْرُورَةُ الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ وَمَا يُسْتَفَادُ بِهِ مُشْتَرَكًا بَيْنَهُمَا، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ."

( كِتَابُ الشَّرِكَةِ، الْبَابُ الْأَوَّلُ فِي بَيَانِ أَنْوَاعِ الشَّرِكَةِ ، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي بَيَانِ أَنْوَاعِ الشَّرِكَةِ، ٢ / ٣٠١ - ٣٠٢، ط: دار الفكر)

7-  خریدے گئے شیئر کی وصولی اور اس کی قیمت کی ادائیگی دونوں ادھار نہ ہوں، یعنی مثال کے طور پر خریدار زبانی شیئر آج کی قیمت پر خریدے، اور قیمت کی ادائیگی اور شیئر کی وصول ایک ہفتہ بعد طے کرے، تو صورت بھی جائز نہیں۔

جواہر الفتاوی میں ہے:

"یہ خرید و فروخت دونوں طرف سے ادھار ہے، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

نهي رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم عَن بيع الكالئ بالكالئ.

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھار کی بیع ادھار سے منع  فرمایا ہے۔

اس واسطے مذکورہ طریقے پر شیئرز کی خرید و فروخت نا جائز ہے۔" ( ٣ / ٧٠، ط: اسلامی کتب خانہ)

8- شیئرز کی خرید و فروخت میں جوے کی صورت نہ ہو، بعض مرتبہ شیئر کے خریدار کا مقصد ڈیفرینس برابر کرنا ہوتا ہے،  یعنی اس کا مقصد کمپنی کا حصہ دار بن کر سالانہ منافع حاصل کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقصد کم قیمت پر خرید کر قیمت بڑھتے ہی فروخت کرنا ہوتا ہے، اس غرض سے شیئرز کی خرید و فروخت کرنے  والے شیئرز پر شرعی قبضہ کیے بغیر آگے فروخت کر دیتے ہیں، جس میں اصل رقم کے بڑھنے اور ڈوبنے دونوں کا خطرہ ہوتا ہے، جسے شریعت کی اصطلاح میں جوا کہا جاتا ہے۔

أحكام القران للجصاص میں ہے:

"وَحَقِيقَتُهُ تَمْلِيكُ الْمَالِ عَلَى الْمُخَاطَرَةِ وَهُوَ أَصْلٌ فِي بُطْلَانِ عُقُودِ التَّمْلِيكَاتِ الْوَاقِعَةِ عَلَى الْأَخْطَارِ."

( المائدة: ٩٠، باب تحريم الخمر، ٤ / ١٢٧، ط: دار احياء التراث العربي)

احكام القران للجصاص میں ہے:

"وَلَا خِلَافَ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَحْرِيمِ الْقِمَارِ وَأَنَّ الْمُخَاطَرَةَ مِنْ الْقِمَارِ قَالَ ابْن عَبَّاسٍ إنَّ الْمُخَاطَرَةَ قِمَارٌ وَإِنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يُخَاطِرُونَ عَلَى الْمَالِ وَالزَّوْجَةِ وَقَدْ كَانَ ذَلِكَ مُبَاحًا إلَى أَنْ وَرَدَ تَحْرِيمُهُ وَقَدْ خَاطَرَ أَبُو بَكْر الصِّدِّيقُ الْمُشْرِكِينَ حِينَ نزلت الم غُلِبَتِ الرُّومُ،وَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: زِدْ فِي الْخَطَرِ وَأَبْعِدْ فِي الْأَجَلِ ثُمَّ حُظِرَ ذَلِكَ وَنُسِخَ بِتَحْرِيمِ الْقِمَارِ وَلَا خِلَافَ فِي حَظْرِهِ."

( البقرة: ٢١٩، باب تحريم الميسر، ٢ / ١١، ط: دار احياء التراث العربي)

1- 2- لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کرتے ہوئے اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنا  اور مختلف کمپنیز کے شیئرز کی خرید و فروخت جائز  ہوگا،  بصورتِ دیگر اس کاروبار سے منسلک ہونا جائز نہیں ہوگا۔

3۔  مسئولہ صورت کی تفصیل  شرائط بالا کی شرط نمبر 7 میں بیان کردی گئی ہے۔

4۔ واضح رہے کہ جن چیزوں میں درج ذیل صفات پائی جاتی ہوں ان کی ذخیرہ اندوزی منع ہے:

1۔ وہ چیز عرف عام میں انسان یا جانور کی غذا کے طور پر استعمال ہوتی ہو۔

  2۔  یہ اشیاء ایسے مقامات سے خریدی گئی ہوں جن  کی پیداوار اس شہر میں آتی ہو۔

3۔ ان کو ذخیرہ کرنے میں شہر والوں کو نقصان پہنچتا ہو۔

  لہذا اگر کسی غذائی چیز کی عام لوگوں کو ضرورت ہو اور اسے ذخیرہ کرنے کے نتیجے میں  وہ چیز آسانی سے نہ ملے جس کی وجہ سے عام لوگوں کو پریشانی لاحق ہو یا وہ اتنی مہنگی ہوجائے کہ عام لوگوں کے لیے عرفاً ضرر (نقصان) کا باعث ہو کہ عام لوگ اس کو پھر باآسانی خرید نہ سکتے ہوں ایسی صورت میں اس چیز کو ذخیرہ کرنا درست نہیں ہوگا۔

اور اگر  کوئی شخص  ذخیرہ اندوزی  یا عام لوگوں کو ضرر پہنچانے کی نیت کے بغیر  غلہ خرید کر رکھ لیتا ہے اور مارکیٹ میں وہ غلہ مناسب قیمت پر مل رہا ہے تو یہ ممنوع ذخیرہ اندوزی میں شامل نہیں ہوگا۔

اسی طرح اگر کوئی بڑا شہر ہے کہ جس میں کوئی شخص غلہ وغیرہ لے کر محفوظ  کرلیتا ہے اور اس کے غلہ ذخیرہ کرنے سے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچتا تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا۔

نیز مذکورہ شرائط مفقود ہونے کی صورت میں (یعنی غذا اور غلہ کے علاوہ)  دیگر اشیاء کو خرید کر رکھ لینا بھی ممنوعہ ذخیرہ اندوزی میں داخل نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 398):

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره. (قوله: وكره احتكار قوت البشر) الاحتكار لغةً: احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس، وشرعاً: اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يوماً لقوله عليه الصلاة والسلام: «من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس». وفي رواية: «فقد برئ من الله وبرئ الله منه». قال في الكفاية: أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة اهـ وفي أخرى: «فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لايقبل الله منه صرفاً ولا عدلاً». الصرف: النفل، والعدل الفرض، شرنبلالية عن الكافي وغيره. وقيل: شهراً. وقيل: أكثر. وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم؛ لحصوله. وإن قلت: المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى! در منتقى، مزيداً، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد، وعليه الفتوى، كذا في الكافي، وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار، وعن محمد الاحتكار في الثياب، ابن كمال. (قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخناً لا عسلاً وسمناً، در منتقى (قوله: وقت) بالقاف والتاء المثناة من فوق الفصفصة بكسر الفاءين وهي الرطبة من علف الدواب اهـ ح وفي المغرب: القت اليابس من الإسفست اهـ ومثله في القاموس، وقال في الفصفصة: بالكسر هو نبات فارسيته إسفست، تأمل (قوله: في بلد) أو ما في حكمه كالرستاق والقرية، قهستاني (قوله: يضر بأهله) بأن كان البلد صغيراً، هداية".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں