بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسٹیٹ لائف بیمہ پالیسی نامی ادارے میں نوکری کرنے کا شرعی حکم


سوال

 میرے پاس ایک گورنمنٹ ادارے ( اسٹیٹ لائف بیمہ پالیسی ) سے جاب آئی ہوئی ہے، جو اسٹیٹ لائف انشورنس بیمہ پالیسی کی ہے، وہ لوگ کہہ رہے ہیں كہ مجھے کلائنٹ بنانے ہیں، جس میں پالیسی کے حوالے سے انہیں سمجھانا ہےکہ 10 سال کی پالیسی ہے، جس میں ہر سال آپ کو 16000 روپے دینے ہیں، 16 ہزار  کے حساب سے 10 سال میں تقریباً2 لاکھ کی رقم بنتی ہے، مگر آپ کو 10 سال بعد 11 لاکھ روپے ملیں گے، اور 10 سال كے دورانیے میں آپ کو انجری یا ایکسیڈنٹ ہونے پربھی  کچھ رقم  دی جائے گی،اِس پیسے سے اسٹیٹ لائف بیمہ پالیسی  والے عمارتیں اور گھر بنا کر فروخت کرتے ہیں، تو 10 سال میں اِس سے اچھا خاصہ منافع ہوتا ہے، جس میں سے وہ ہمیں تھوڑا منافع دیتے ہیں،اور بقیہ خود رکھتے ہیں۔

تو سوال یہ ہے کے جناب کیا یہ کام کرنا جائز ہے ؟کیوں كہ اِس رقم کو وہ کاروبار میں لگا رہے ہیں، اور یہ فراڈ بھی نہیں ہے، یہ گورنمنٹ کا ادارہ ہے، جمشید روڈ پر اور پورے کراچی میں اس کی برانچیں ہیں، لہذاراہ نمائی فرمائیں کہ یہ کام اسلام میں جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے گورنمنٹ کے " اسٹیٹ لائف بیمہ پالیسی " نامی مذکورہ  ادارے میں نوکری کرنا شرعاً جائز نہیں ہے،کیوں کہ بیمہ پالیسی کے حوالہ سے سائل کا ذکرہ کردہ سرکاری ادارہ ہو یا دیگر سرکاری و غیرسرکاری ادارے ،تقریباًتمام اداروں کے تحت  رائج بیمہ پالیسی  بیک وقت "سود"اور"جوے"   کا مرکب اور مجموعہ ہے،"سود" اس اعتبار سے ہے کہ دس سال تک سالانہ قسط وار جورقم وصول کی جاتی ہے ،دس سال بعد اس مجموعی رقم پر ملنے والی اضافی رقم "سود"ہے،اسی طرح انجری یا ایکسیدنٹ  کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد  جورقم ملتی ہے وہ بھی "سود" ہے،  اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر انجری یا ایکسیڈنٹ وغیرہ نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے،لہذا جوا اور سودی معاملات کرنے والے ادارے میں نوکری کرناگناہ کے کام میں تعاون پائے جانے کی وجہ سے  شرعاًجائز نہیں ہے،قرآنِ مجید  میں سودی لین دین کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔

مروجه "بیمہ پالیسی / لائف انشورنس "سے متعلق مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر موجود جامعه كا تفصيلي فتوی ملاحظہ کریں:

اسٹیٹ لائف انشورنس پالیسی خریدنے اور اس میں ملازمت کرنے کا حکم ، مروجہ تکافل کمپنیز کا شرعی حکم

قرآنِ کریم میں ہے:

"{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}."

ترجمہ:…’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے‘‘۔

(البقرۃ:آیت:279،278، بیان القرآن)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «‌هم ‌سواء»."

(كتاب المساقاة،با ب لعن آکل الربا، ومؤکله،ج:3، ص:1219، ط:دار احياء التراث العربي)

ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔"

أحكام القرآن للجصاصؒ  میں ہے:

"وقوله تعالى:وتعاونوا على البر والتقوىيقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورة المائدة، ج:3، ص:296، ط:داراحياء التراث)

فتاوی شامی میں ہے:

"القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي ‌القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والاباحة، ج:فصل في البيع، ج:6، ص:403، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403101877

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں