بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسٹیٹ لائف انشورنس پالیسی خریدنے اور اس میں ملازمت کرنے کا حکم ، مروجہ تکافل کمپنیز کا شرعی حکم


سوال

1۔"اسٹیٹ لائف انشورنس کار پوریشن آف پاکستان " حکومت ِپاکستان  کا سب سے بڑا  مالیاتی ادارہ ہے اور 1932ء سے قائم ہے۔یہ بیمہ کا کاروبار  کرتی ہے ،ان کا دعوی ہے کہ ہم زندگی کا بیمہ نہیں کرتے ہیں بلکہ سالانہ معقول رقم جو کوئی شخص پریمیم کی صورت میں جیسے 30000 ہزار روپے جمع ہر سال اسٹیٹ لائف کے پاس جمع کرواتا ہے،ہم اس رقم کو (insurred) یعنی اس کا بیمہ کرتے ہیں اور ہمار ا بنیادی کام investmentہے ،ہم بیمہ ذمہ داران کی یہ رقوم رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں لگاتے ہیں۔یہ سچ اور حققیت ہے کہ ملک کے ہر حصہ میں اسٹیٹ لائف کے اپنے پلاٹ /بلڈنگز اور املاک ہیں جن میں اداروں کے دفاتر ہیں اور وہ ہر ماہ کرایہ ادا کرتے ہیں ، اسٹیٹ لائف کے پاس کرایہ کی مد میں رقوم آتی ہیں اور ان کا 97.50 فیصد کھاتہ داروں کو دیتے ہیں اور باقی رقوم سے اپنے کاروباری امور چلاتے ہیں۔

1۔سوال یہ ہے کہ ان سے انشورنس پالیسی خریدنا کیسے ہے ؟

2۔اسٹیٹ لائف میں بطور سیلز آفیسر جاب کرنا کیسا ہے ؟

3۔ تکافل انشورنس ،اسلامک انشورنس  کی بنیادی ہے ،پاکستان اور دیگر ممالک میں تکافل انشورنس کاکام جاری ہے ،یہ بیمہ کا نعم البدل ہے ۔کیا یہ جائز ہے ؟

جواب

1۔واضح رہے کہ از  روئے  شرع مروجہ  انشورنس اور بیمہ کی تمام پالیسیوں  ( یعنی لائف انشورنس، ہیلتھ انشورنس، ایجوکیشن انشورنس، میرج انشورنس، گاڑی وغیرہ کی انشورنس یا اس کے علاوہ دیگر پالیسیوں)  کا طریقہ یہ ہے کہ  انشورنس کرانے والا معاہدہ کے تحت ماہانہ/سالانہ  کچھ رقم انشورنس کرنے والے ادارے کو دیتا ہے، اگر اتفاق سے اس کا نقصان ہوجائے تو انشورنس ادارہ یا کمپنی اس نقصان کی تلافی کرتا ہے، اور اس کی جمع کی ہوئی رقم سے زیادہ رقم دیتی ہے اور اگر مقررہ مدت میں نقصان نہیں ہوا یا اس آدمی کا انتقال نہیں ہوا تو بعض صورتوں میں اس کی جمع کی ہوئی رقم ہی اس کو واپس کردی جاتی ہے ، اور بعض صورتوں میں اضافی رقم ملاکر واپس کی جاتی ہے، اور بعض صورتوں میں جمع کی ہوئی رقم بھی واپس نہیں کی جاتی۔انشورنس کی یہ تمام صورتیں  مندرجہ ذیل شرعی مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً نا جائز اور حرام    ہیں:

1۔ سود، کیوں کہ حادثہ اور موت واقع ہونے کی صورت میں پریمییم کے طور پر جمع کی گئی رقم سے زیادہ رقم ملتی ہے، یہ سود ہے۔

2۔ جوا، کیوں کہ یہاں رقم داؤ پر لگادی جاتی ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ اس پراضافہ مل جائے اور یہ بھی خطرہ ہے کہ اصل رقم ہی ڈوب ہوجائے۔

3۔دھوکہ، کیوں کہ اس کا انجام غیر یقینی ہے، صورتِ حال واضح نہیں ہے۔

اور مذکورہ بالا تینوں چیزیں  قرآن و سنت کی رو سے ممنوع اور ناجائز ہیں ؛ لہذا صورت ِ مسئولہ میں "اسٹیٹ لائف انشورنس"  سے کوئی معاہدہ کرنا /پالیسی خریدنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

2۔نیز  "اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی" کا کا م جائز نہیں  ؛ اس لیے اس  میں ملازمت کرنا بھی  جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کی تنخواہ حلال ہے۔

3۔اور  آج کل انشورنس اور بیمہ کے متبادل کے طور  پر "  تکافل کمپنیز " جو مختلف ناموں سے تکافل کی سہولیات دے رہی ہیں، ان کا طریقہ کار بھی  درست نہیں  ؛ کیون کہ ان  کے طریقہ کار میں  بھی تقریباً وہی خرابیاں موجود ہیں جوکہ عام انشورنس اور بیمہ میں ہیں  ؛ لہٰذا  مروجہ اسلامک تکافل کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنا / ممبر بننا  بھی ناجائز ہے  ۔

        تکافل کے نظام کو جائز قرار دینے والے  اس  کی بنیاد ، وقف کے قواعد  پر قرار دیتے ہیں ، لیکن  اس نظام میں وقف کے  قواعد کی مکمل رعایت نہیں کی جاتی ،  ذیل میں  اس نظام کی چند بنیادی خرابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے:

1۔  مروجہ تکافل میں ابتداءً  وقف فنڈ قائم کرنے والے خود اپنا بھی تکافل کرواتے ہیں، اور اپنی ہی وضع کردہ  شرائطِ وقف کے تحت اپنے ہی موقوفہ مال سے  فوائد اٹھاتے ہیں ، جب کہ  نقود کا وقف بذاتِ خود  محلِ نظر ہے، اگر تعامل کی وجہ سے اسے درست مان بھی لیا جائے  تو نقود کا وقف کرنے والا  خود اپنی  وقف کردہ منقولی  شیئ  (نقود  وغیرہ) سے نفع نہیں اٹھاسکتا،  یعنی منقولی اشیاء میں ”وقف علی النفس “ درست نہیں ہے۔

2۔  دوسری خرابی اس نظام میں یہ ہے کہ:   یہاں پر عقد کی نسبت  کمپنی (شخصِ قانونی) کی طرف ہوتی ہے، جوکہ ایک فرضی اور معنوی چیز ہے، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں  ہے، جب کہ عقد کرنے والوں کا عاقل ، بالغ ہونا ضروری  ہے، اور ظاہر ہے کہ شخصِ قانونی میں ان صفات کا پایا  جانا ممکن نہیں ہے،  جس کی بنا پر تمام معاملات حقیقت میں کمپنی کے ڈائریکٹر ہی سرانجام دیتے ہیں ، چناچہ وہ ڈائریکٹر جب ایک  شخصِ قانونی (وقف فنڈ) کو ”رب المال“ اور دوسرے شخصِ قانونی  (کمپنی)  کو ”مضارب“ بناتے ہیں ، اس حال میں کہ دونوں کے  متولی وہ خود ہوتے ہیں تو  نفس الامر اور حقیقت میں وہ خود عقد کے دونوں  پہلو ”رب المال“ اور ”مضارب“ بنتے ہیں ، اس لیے کہ ڈائریکٹر حضرات ہی  کمپنی اور  وقف فنڈ کی نمائندگی کرتے ہیں ، گویا وہ یوں کہتے ہیں کہ  (وقف فنڈ کی طرف سے)  ہم مال مضاربت کے لیے دیتے ہیں ، اور (کمپنی کی طرف سے) ہم  مال مضاربت کے لیے وصول کرتے ہیں ، دوسری طرف عام  طور پر  ان ڈائریکٹرز ہی کو کمپنی کہا جاتا ہے،  نتیجتًا ایک ہی فرد (حقیقی) خود ہی رب المال ٹھہرا اور خود ہی مضارب، جوکہ شرعاً درست نہیں ہے۔

 3۔ تیسری خرابی اس نظام میں  یہ ہے کہ:   چندہ کی رقم وقف کی ملکیت ہے اور شریعت کی رو سے   اس رقم کا مالک کو واپس کرنا جائز نہیں ہے،  نہ کل کی واپسی نہ ہی جز کی واپسی،  بلکہ  اس رقم کو وقف کی طرح   صرف وقف  کے مصالح اور مقاصد میں خرچ کرنا ضروری  ہے،  ایسی کوئی صورت نہیں کہ متولی، وقف کی ملکیت   واقف  کو واپس کردے،  یا چندہ دہندہ اس کو واپس لے لے،  جب کہ تکافل میں چندے کی رقم چندہ دہندگان کو مختلف  ناموں سے واپس کی جاتی ہے، جس کی شریعت میں کوئی نظیر نہیں  ہے۔

4۔ چوتھی خرابی اس نظام میں  یہ ہے کہ:  اسلام کے نظامِ  کفالت کی بنیاد  خالص تبرع اور احسان پر ہے،  جیسا کہ رفاہی اور خیراتی ادارے یہ کام انجام دے رہے ہیں، جب کہ مروجہ  تکافل میں پالیسی ہولڈر اور وقف فنڈ کے درمیان ہونے والا عقد،  عقدِ معاوضہ کی حیثیت رکھتا ہے،  تو جس طرح انشورنس  عقدِ معاوضہ ہونے کی وجہ سے  سود ، قمار اور غرر جیسے مہلک گناہوں کا مجموعہ تھا،  اسی طرح تکافل میں بھی یہی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔

5۔ پانچویں خرابی اس نظام میں یہ ہے کہ وقف کے بارے  میں شرعی حکم یہ ہے کہ وہ  "علی التابید" ہو تا ہے یعنی وقف ایسی جہت کے لیے کیا جائے  جو ختم ہونے والی  نہ  ہو  ، جب کہ تکافل کمپنیاں محدود مدت کے لیے پالیسیاں جاری کرتی ہیں۔

لہذا کسی بھی مروجہ تکافل کمپنی  کے ساتھ   کسی  قسم کا معاہدہ کرنا اور اس کا ممبر بننا شرعاً  نا جائز اور حرام   ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوآ اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَآءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّٰهُ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خٰلِدُونَ﴾ [البقرة:۲۷۵]

﴿يَآأَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾

(المائدة:۹۰) 

احکام القرآن میں ہے:

"ولا خلاف بین أهل العلم في تحریم القمار".

(أحکام القرآن للجصاص : 540/1 ، ط : قدیمي کتب خانه)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"ولا تعاونوا على الاثم و العدوان، یأمر تعالی عبادہ المؤمنین بالمعاونة علی فعل الخیرات وهوالبر و ترك المنکرات و هو التقوی، و ینهاهم عن التناصر علی الباطل و التعاون علی المآثم والمحارم".

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»."

(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکله :۳ / ۱۲۱۹، ط : داراحیاءالتراث العربی)

        مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر".

(کتاب البیوع و الأقضیة ، البیض الذی یقامر فیه :۴ /۴۸۳، ط : مکتبة الرشد ، الریاض)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً ؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص۔"

(کتاب الحظر و الإباحة ، فصل في البیع :۶ /۴۰۳، ط : سعید)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"أنواع التأمين:التأمين من حيث الشكل نوعان: 

۱-تأمين تعاوني...

۲  -تأمين تجاري أو التأمين ذو القسط الثابت، وهو المراد عادة عند إطلاق كلمة التأمين، وفيه يلتزم المستأمن بدفع قسط معين إلى شركة التأمين القائمة على المساهمة، على أن يتحمل المؤمن (الشركة) تعويض الضرر الذي يصيب المؤمن له أو المستأمن. فإن لم يقع الحادث فقد المستأمن حقه في الأقساط، وصارت حقاً للمؤمن. وهذا النوع ينقسم من حيث موضوعه إلى:

 ۱  -تأمين الأضرار: وهو... ۲  -وتأمين الأشخاص: وهو يشمل:

التأمين على الحياة: وهو أن يلتزم المؤمن بدفع مبلغ لشخص المستأمن أو للورثة عند الوفاة، أو الشيخوخة، أو المرض أو العاهة، بحسب مقدار الإصابة.

والتأمين من الحوادث الجسمانية: وهو أن يلتزم المؤمن بدفع مبلغ معين إلى المؤمن له في حالة إصابته أثناء المدة المؤمن فيها بحادث جسماني، أو إلى مستفيد آخر إذا مات المستأمن. ... أما التأمين التجاري أو التأمين ذو القسط الثابت: فهو غير جائز شرعاً، وهو رأي أكثر فقهاء العصر ... وسبب عدم الجواز يكاد ينحصر في أمرين: هما الغرر والربا. أما الربا: فلا يستطيع أحد إنكاره؛ لأن عوض التأمين ناشئ من مصدر مشبوه قطعاً؛ لأن كل شركات التأمين تستثمر أموالها في الربا، وقد تعطي المستأمن (المؤمن له) في التأمين على الحياة جزءاً من الفائدة، والربا حرام قطعاً في الإسلام ... والربا واضح بين العاقدين: المؤمن والمستأمن ؛ لأنه لا تعادل ولا مساواة بين أقساط التأمين وعوض التأمين، فما تدفعه الشركة قد يكون أقل أو أكثر، أو مساوياً للأقساط، وهذا نادر. والدفع متأخر في المستقبل. فإن كان التعويض أكثر من الأقساط، كان فيه ربا فضل وربا نسيئة، وإن كان مساوياً ففيه ربا نسيئة، وكلاهما حرام ... أما الغرر: فواضح في التأمين؛ لأنه من عقود الغرر: وهي العقود الاحتمالية المترددة بين وجود المعقود عليه وعدمه، وقد ثبت في السنة حديث صحيح، رواه الثقات عن جمع من الصحابة: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الغرر». ويقاس على البيع عقود المعاوضات المالية، فيؤثر الغرر فيها، كما يؤثر في عقد البيع. وعقد التأمين مع الشركات من عقود المعاوضات المالية، لا التبرعات، فيؤثر فيه الغرر، كما يؤثر في سائر عقود المعاوضات المالية، وقد وضعه رجال القانون تحت عنوان (عقود الغرر) ؛ لأن التأمين لا يكون إلا من حادث مستقبل غير محقق الوقوع، أو غير معروف وقوعه، فالغرر عنصر لازم لعقد التأمين. والغرر في التأمين في الواقع كثير، لا يسير، ولا متوسط؛ لأن من أركان التأمين: الخطر، والخطر حادث محتمل لا يتوقف على إرادة العاقدين. والمؤمن له لا يستطيع أن يعرف وقت العقد مقدار ما يعطي، أو يأخذ، فقد يدفع قسطاً واحداً، ويقع الخطر، فيستحق جميع ما التزم به المؤمن، وقد يدفع جميع الأقساط، ولا يقع الخطر، فلا يأخذ شيئاً وكذلك حال المؤمن، لا يعرف عند العقد مقدار ما يأخذ، أو ما يعطي".

(القسم الثالث : العقوداو التصرفات المدنیة ، أنواع التامین :۵ /۳۴۲۱۔۔۳۴۲۵، ط : دارالفکر)

         بدائع الصنائع میں ہے:

"(منها) أن يكون مما لاينقل ولايحول كالعقار ونحوه، فلايجوز وقف المنقول مقصوداً لما ذكرنا أن التأبيد شرط جوازه، ووقف المنقول لايتأبد؛ لكونه على شرف الهلاك، فلايجوز وقفه مقصوداً إلا إذا كان تبعاً للعقار، بأن وقف ضيعة ببقرها وأكرتها وهم عبيده فيجوز، كذا قاله أبو يوسف، وجوازه تبعاً لغيره لايدل على جوازه مقصوداً، كبيع الشرب ومسيل الماء، والطريق أنه لايجوز مقصوداً ويجوز تبعاً للأرض والدار، وإن كان شيئاً جرت العادة بوقفه، كوقف المر والقدوم لحفر القبور، ووقف المرجل لتسخين الماء، ووقف الجنازة وثيابها۔"

(کتاب الوقف ، فصل فی الشرائط التی ترجع الی الموقوف : 6 / 220، ط: سعید)

        العقود الدريه في تنقيح الفتاوى الحامديه میں ہے:

"وفي موضع آخر من الوقف من فتاوى الشلبي المذكور ما نصه: فإذا كان وقف الدراهم لم يرو إلا عن زفر، ولم يرو عنه في وقف النفس شيء فلا يتأتى وقفها على النفس حينئذٍ على قوله، لكن لو فرضنا أن حاكماً حنفياً حكم بصحة وقف الدراهم على النفس هل ينفذ حكمه؟ فنقول: النفاذ مبني على القول بصحة الحكم الملفق، وبيان التلفيق أن الوقف على النفس لايقول به إلا أبو يوسف، وهو لايرى وقف الدراهم، ووقف الدراهم لايقول به إلا زفر، وهو لايرى الوقف على النفس، فكان الحكم بجواز وقف الدراهم على النفس حكماً ملفقاً من قولين، كما ترى وقد مشى شيخ مشايخنا العلامة زين الدين قاسم في ديباجة تصحيح القدوري على عدم نفاذه، ونقل فيها عن كتاب توفيق الحكام في غوامض الأحكام: أن الحكم الملفق باطل بإجماع المسلمين. ومشى الطرسوسي في كتابه أنفع الوسائل على النفاذ مستنداً في ذلك لما رآه في منية المفتي، فلينظره من أراده۔"

(کتاب الوقف : 1 / 109 ،  ط : دار المعرفة)

      فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر ما مر في مسألة البقرة اعتبار العرف الحادث، فلايلزم كونه من عهد الصحابة، وكذا هو ظاهر ما قدمناه آنفاً من زيادة بعض المشايخ أشياء جرى التعامل فيها، وعلى هذا فالظاهر اعتبار العرف في الموضع، أو زمان الذي اشتهر فيه دون غيره فوقف الدراهم متعارف في بلاد الروم دون بلادنا، وقف الفأس والقدوم كان متعارفاً في زمن المتقدمين ولم نسمع به في زماننا، فالظاهر أنه لايصح الآن، ولئن وجد نادراً لا يعتبر؛ لما علمت من أن التعامل هو الأكثر استعمالاً، فتأمل".

(کتاب الوقف : 364/4 ، ط: سعید)

         بدائع الصنائع  میں ہے:

"(أما) شرائط الانعقاد فأنواع: بعضها يرجع إلى العاقد، وبعضها يرجع إلى نفس العقد، وبعضها يرجع إلى مكان العقد، وبعضها يرجع إلى المعقود عليه، (أما) الذي يرجع إلى العاقد فنوعان: أحدهما أن يكون عاقلاً، فلاينعقد بيع المجنون والصبي الذي لايعقل؛ لأن أهلية المتصرف شرط انعقاد التصرف، والأهلية لاتثبت بدون العقل فلايثبت الانعقاد بدونه … والثاني: العدد في العاقد، فلايصلح الواحد عاقداً من الجانبين في باب البيع إلا الأب فيما يبيع مال نفسه من ابنه الصغير".

(کتاب البیوع : 135/5 ، ط : سعید)

         البحر الرائق  میں ہے:

"(قوله : ولا يملك الوقف) بإجماع الفقهاء، كما نقله في فتح القدير؛ ولقوله عليه السلام لعمر -رضي الله عنه-: «تصدق بأصلها لاتباع ولاتورث». ولأنه باللزوم خرج عن ملك الواقف وبلا ملك لايتمكن من البيع، أفاد بمنع تمليكه وتملكه منع رهنه، فلا يجوز للمتولي رهنه".

(کتاب الوقف5 / 221، ط: دار الکتاب الاسلامی)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303101101

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں