بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ملازم کا اپنی جگہ کسی اور کو مقرر کرنا


سوال

 کیا ایک گورنمنٹ ٹیچر اپنی جگہ کسی دوسرے شخص کو اپنی تنخواہ دے کر ڈیوٹی پر بھیج سکتا ہے۔ اور وہ شخص اس ٹیچر سے زیادہ قابل محنتی اور وقت کا پابند ہو ۔اورادارے کے  مفاد میں بھی ہو جب کہ ہیڈ ماسٹر اور گاؤں والے بھی ملازم کی بہ نسبت اس دوسرے شخص سے مطمئن ہوں۔ شرعی نقطہ نظر سے ملازم کا تنخواہ دینا اور دوسرے شخص کا تنخواہ وصول کرنا جائز ہے، حرام ہے، یا مکروہ فعل ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سرکاری استاذ کو سرکار کی جانب سے  چوں کہ اپنی جگہ کسی اور کو  جائے ملازمت میں مقرر کرنے کا اختیار نہیں دیا جاتا ہے، لہذا اس کے لئے اپنی جگہ کسی اور کو مقرر کرنا جائز نہیں، مقرر کرنے کی صورت میں سرکار کی جانب سے مقرر شدہ تنخواہ لینے کا ملازم شرعًا حق دار نہ ہوگا، اور نہ ہی اس کے  لیے تنخواہ وصول کرنا جائز ہوگا، البتہ اس کی جگہ جو شخص معلم کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہا ہے، اسے متعینہ  اجرت ملے گی، ورنہ وہ اجرتِ مثل کا حق دار ہوگا، لہذا اگر سرکاری ملازم  ملازمت نہیں کرسکتا تو  استعفی دے دے، تاکہ سرکار اس کی جگہ کسی اہل شخص کو مقرر کردے، یا اپنی جگہ کسی اور کو مقرر کرنے کی سرکار سے اجازت لے لے، پس اگر اسے اجازت مل جائے، تو اس صورت میں وہ اپنی جگہ  کسی اور کو مقرر کرسکتی ہے۔

مزید تفصیل کے  لیے دیکھیے:

اپنی جگہ کسی دوسرے سے ملازمت کروانا

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"(وإذا شرط عمله بنفسه) بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك (لا يستعمل غيره إلا الظئر فلها استعمال غيرها) بشرط وغيره خلاصة (وإن أطلق كان له) أي للأجير أن يستأجر غيره، أفاد بالاستئجار أنه لو دفع لأجنبي ضمن الأول

(قوله: بأن يقول له اعمل بنفسك أو بيدك) هذا ظاهر إطلاق المتون وعليه الشروح، فما في البحر والمنح عن الخلاصة من زيادة قوله ولا تعمل بيد غيرك فالظاهر أنه لزيادة التأكيد لا قيد احترازي ليكون بدونه من الإطلاق تأمل.

(قوله: لايستعمل غيره) ولو غلامه أو أجيره قهستاني؛ لأن عليه العمل من محل معين فلا يقوم غيره مقامه كما إذا كان المعقود عليه المنفعة، بأن استأجر رجلا شهرا للخدمة لا يقوم غيره مقامه؛ لأنه استيفاء للمنفعة بلا عقد زيلعي.

قال في العناية: وفيه تأمل،؛ لأنه إن خالفه إلى خير بأن استعمل من هو أصنع منه أو سلم دابة أقوى من ذلك ينبغي أن يجوز اهـ وأجاب السائحاني بأن ما يختلف بالمستعمل فإن التقييد فيه مفيد وما ذكر من هذا القبيل اهـ.

وفي الخانية: لو دفع إلى غلامه أو تلميذه لا يجب الأجر اهـ.

وظاهر هذا مع التعليل المار أنه ليس المراد بعدم الاستعمال حرمة الدفع مع صحة الإجارة واستحقاق المسمى أو مع فسادها واستحقاق أجر المثل وأنه ليس للثاني على رب المتاع شيء لعدم العقد بينهما أصلا وهل له على الدافع أجر المثل؟ محل تردد فليراجع. (قوله: بشرط وغيره) لكن سيذكر الشارح في الإجارة الفاسدة عن الشرنبلالية أنها لو دفعته إلى خادمتها أو استأجرت من أرضعته لها الأجر إلا إذا شرط إرضاعها على الأصح، وكأن وجه ما هنا أن الإنسان عرضة للعوارض فربما يتعذر عليها إرضاع الصبي فيتضرر فكان الشرط لغوا تأمل (قوله وإن أطلق) بأن لم يقيده بيده وقال خط هذا الثوب لي أو اصبغه بدرهم مثلا؛ لأنه بالإطلاق رضي بوجود عمل غيره قهستاني."

( كتاب الاجارة، شروط الاجارة، ٦ / ١٨، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200937

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں