ہمارے چچا نے گورنمنٹ کو مفت زمین دی ہے، جس پر حکومت نے ٹیوب ویل لگائی، اور میرے چچا کو دو نوکریاں دی، جس میں میرے چچا نے ایک چوکیدار کی نوکری میرے نام کر دی، جس کی تنخواہ میرے چچا لیتے ہیں اور ڈیوٹی کے لیے اس نے تنخواہ پر ایک بندے کو رکھا ہوا ہے، یعنی میں بذاتِ خود ڈیوٹی نہیں کر تا ہو، بلکہ میری جگہ وہ بندہ ڈیوٹی کرتا ہے جس کو میرے چچا نے تنخواہ پر رکھا ہے، میں بس صرف تنخواہ لے کے چاچا کو دے دیتا ہوں، اب آپ حضرات راہ نمائی فرمائیے:
1- کیا اس طرح تنخواہ لینا جائز ہے؟
2- کیا میرے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں گورنمنٹ نے آپ کے چچا کو نوکری پر کسی تعلق والے مناسب شخص کو رکھوانے کا اختیار دیا جس کو انہوں نے آپ کے حق میں وصول کیا، اب اگر ملازمت کا معاہدہ آپ سے ہوا یعنی سرکاری کاغذات میں آپ کا نام ہے تو آپ کا اپنی جگہ کسی اور کو بھیجنا سرکاری اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔ آپ سرکار کے علم میں یہ لائیں اورپھر بھی اجازت ہو تو پھر اس طرح کیا جاسکتا ہے، بصورتِ دیگر اس کی شرعًا اجازت نہیں ہے۔
الفتاوى الهندية (4/ 411):
"وأما في حق الأجير الخاص فلايشترط بيان جنس المعمول فيه ونوعه وقدره وصفته وإنما يشترط بيان المدة فقط وبيان المدة في استئجار الظئر شرط الجواز بمنزلة استئجار العبد للخدمة. ومنها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعًا فلايجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعًا."
شرح المجلہ للاتاسی میں ہے:
"الْأَجِيرُ الَّذِي اُسْتُؤْجِرَ عَلَى أَنْ يَعْمَلَ بِنَفْسِهِ لَيْسَ لَهُ أَنْ يَسْتَعْمِلَ غَيْرَهُ مَثَلًا: لَوْ أَعْطَى أَحَدٌ جُبَّةً لِخَيَّاطٍ عَلَى أَنْ يَخِيطهَا بِنَفْسِهِ بِكَذَا دَرَاهِمَ، فَلَيْسَ لِلْخَيَّاطِ أنْ يَخِيطَهَا بِغَيْرِهِ وَإِنْ خَاطَهَا بِغَيْرِهِ وَتَلِفَتْ فَهُوَ ضَامِنٌ ..... لَوْ أَطْلَقَ الْعَقْدَ حِينَ الِاسْتِئْجَارِ فَلِلْأَجِيرِ أَنْ يَسْتَعْمِلَ غَيْرَهُ."
((2/271،272/المادۃ؛571، 572، کتاب الاجارۃ، ط: رشیدیہ)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وَإِذَا شَرَطَ عَمَلَهُ بِنَفْسِهِ) بِأَنْ يَقُولَ لَهُ: اعْمَلْ بِنَفْسِكَ أَوْ بِيَدِكَ (لَايَسْتَعْمِلُ غیرهُ إلَّا الظِّئْرَ فَلَهَا اسْتِعْمَالُ غَيْرِهَا) بِشَرْطٍ وَغَيْرِهِ، خُلَاصَةٌ (وَإِنْ أَطْلَقَ كَانَ لَهُ) أَيْ لِلْأَجِيرِ أَنْ يَسْتَأْجِرَ غَيْرَهُ."
( (6/18، کتاب الاجارۃ، ط: سعید)
"قال في البحر: وحاصل ما في القنية: أن النائب لايستحق شيئاً من الوقف؛ لأن الاستحقاق بالتقرير، ولم يوجد، ويستحق الأصيل الكل إن عمل أكثر السنة. وسكت عما يعينه الأصيل للنائب كل شهر في مقابلة عمله، والظاهر أنه يستحق؛ لأنها إجارة وقد وفى العمل بناء على قول المتأخرين المفتى به من جواز الاستئجار على الإمامة والتدريس وتعليم القرآن … وقال في الخيرية: بعد نقل حاصل ما في البحر: والمسألة وضع فيها رسائل، ويجب العمل بما عليه الناس وخصوصاً مع العذر، وعلى ذلك جميع المعلوم للمستنيب وليس للنائب إلا الأجرة التي استأجره بها.
(شامی 4/420، کتاب الوقف، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144202201482
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن