بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شہر سے باہر اجتماع گاہ میں لوگوں کی زیادہ ہونے کی وجہ سے جمعہ ادا کرنا


سوال

ہمارے یہاں ایک جگہ لوچا، بہادرگنج ،کشنگنج بہار میں تبلیغی اجتماع 2/ 3 مارچ 2024 کو ہونے جا رہا ہے،  جس کی تیاری آج سے ایک ماہ پہلے سے ہی شروع ہو چکی ہے،  جہاں پنج وقتہ نمازوں کے ساتھ جمعہ کی بھی نماز پڑھی جارہی ہیں،  یہ واضح رہے کہ وہاں نہ کوئی اتنی بڑی  مارکیٹ ہے کہ جس سے ساری ضروریات پوری ہوتی ہوں نہ اتنی بڑی آبادی ہے کہ جن کی تعداد تین ہزار تک پہنچے اور نہ ہی کوئی اتنا بڑا گاؤں ہے کہ اسے قصبہ کہا جائے بلکہ ایک چٹیل میدان میں اجتماع گاہ تیار کیا جارہا ہے،  جو گاؤں سے کافی دور ہے .. البتہ اجتماع گاہ کی تیاری کرنے والے حضرات کی تعداد بہت بڑی ہے ساتھ ہی عوام و خواص کی ایک بڑی تعداد باقاعدہ نماز جمعہ پڑھنے کے لیے وہاں ہر جمعہ آرہی ہے،  غالباً اجتماع گاہ کی تیاری کرنے والے اور باقاعدہ نماز جمعہ پڑھنے کے لیے آنے والے حضرات کی تعداد دس ہزار سے زائد ہو جاتی ہے اسی کے مد نظر کچھ مقامی علماء کرام و مفتیان عظام اس جگہ نماز جمعہ کے جواز کے قائل ہیں تو بعض ناجائز کہہ رہے ہیں،  دونوں فریقین کے مابین خلفشار کا عالم بنا ہوا ہے. ایسے موقع پر وہاں نماز جمعہ قائم کرنا درست ہے یا نہیں؟ نیز شرائط جمعہ بھی تفصیل سے بیان فرما دی جائے تاکہ مسئلہ واضح طور پر سمجھ میں آئے ۔

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کی پانچ شرائط ہیں :

  1. شہر یا قصبہ یا اس کا فنا(مضافات) ہونا۔
  2.   ظہر کا وقت ہونا۔
  3.   ظہر  کے وقت میں نمازِ  جمعہ سے پہلے خطبہ ہونا۔
  4.   جماعت یعنی امام کے علاوہ  کم از   کم تین بالغ مردوں کا خطبے کی ابتدا سے پہلی رکعت کے سجدہ تک موجود رہنا۔
  5. اذنِ عام (یعنی نماز قائم کرنے والوں کی طرف سے نماز میں آنے والوں کو اجازت) کے ساتھ نمازِ جمعہ کا پڑھنا۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ  جمعہ کے درست ہونے کے لیے  یہ  شرط ہے کہ شہر یا فنائے شہر(شہر کے باہر کا وہ علاقہ جو  شہر والوں کی   رہائش اور سکونت سے متعلق  مصالح اور ضروریات  کے لیے مختص)   ہو اور قریہ کبیرہ یعنی بڑا گاؤں بھی شہر کے حکم میں داخل ہے،  جب کہ  آبادی اور دیگر روزہ مرہ کی ضروریات وغیرہ کی تفصیل   یہ  دیکھنے کے لیے ہوتی ہے کہ یہ جگہ شہر ہے یا ایسا گاؤں ہے جو شہر کے حکم میں ہے، غرض یہ ہے کہ جمعہ کے قیام کے لیے  شہر یا فناء شہر کا ہونا  ضروری ہے، لہٰذا شہر  اور فناء شہر کے باہر خالی میدان یا صحراء  جو آبادی سے دور ہو اور مضافاتِ شہر میں بھی شمار نہ ہوتا ہو، ایسی جگہ میں جمعہ قائم کرنا درست نہیں ہے، اگرچہ کسی  وقتی ضرورت کی وجہ سے  وہاں لوگ جمع ہوں۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر  مذکورہ اجتماع گاہ کی جگہ اگر شہر، فناء شہر یا بڑی بستی میں واقع نہیں ہے بلکہ شہر سے دور خالی میدان یا صحراء ہے تو ایسی صورت میں یہاں جمعہ کا قیام درست نہیں ہے، بلکہ ظہر کی نماز ادا کی جائے۔ البتہ اگر یہ جگہ فناء شہر یا بڑے گاؤں میں ہونا ثابت ہوتو  اس میں جمعہ قائم کرنا جائز ہوگا۔

نيز مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

شہر کے باہر اجتماع کی صورت میں جمعہ کی نماز پڑھنا

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.

أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها."

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجمعة،فصل فی بیان شرائط الجمعة،1/ 258، ط: سعید)

الدر المختار میں ہے:

"(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجي".

وفي الرد:"(قوله والمختار للفتوى إلخ) اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة وكذا محرر المذهب الإمام محمد وبعضهم قدره بها وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة غلوة ميل ميلان ثلاثة فرسخ فرسخان ثلاثة سماع الصوت سماع الأذان والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره. بيانه أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منهما على فرسخ من كل جانب، نعم هو ممكن لمثل بولاق فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار اهـ ملخصا من [تحفة أعيان الغني بصحة الجمعة والعيدين في الفنا] للعلامة الشرنبلالي."

(‌‌كتاب الصلاة، باب الجمعة، 2/ 138، ط: سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وهل تجوز صلاة الجمعة خارج المصر منقطعا عن العمران أم لا؟ ذكر في الفتاوى رواية عن أبي يوسف أن الإمام إذا خرج يوم الجمعة ‌مقدار ‌ميل أو ميلين فحضرته الصلاة فصلى جاز، وقال بعضهم: لا تجوز الجمعة خارج المصر منقطعا عن العمران، وقال بعضهم على قول أبي حنيفة وأبي يوسف يجوز، وعلى قول محمد لا يجوز، كما اختلفوا في الجمعة بمنى۔"

(کتاب الصلاۃ،فصل بيان شرائط الجمعة،1/ 260،ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100206

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں