بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شہر کے باہر اجتماع کی صورت میں جمعہ کی نماز پڑھنا


سوال

ہمارے ہاں ایک مسئلہ کے متعلق دو علماء کرام کا آپس میں اختلاف ہوا ، ایک عالم دین فرماتے ہیں کہ کسی شہر کے باہر خالی میدان بالفاظ دیگر صحراء جو فناء ِ مصر میں بھی نہیں آتا ، اس میں اگر اجتماع کا انعقاد کسی امیر کے زیر نگرانی کی جائے اور وہاں پر نماز جمعہ پڑھائی جائے تو نماز جمعہ جائز اور درست ہوگا، اور دلیل میں علامہ کاسانی ؒ کی عبارت پیش کرتے ہیں۔ ” ذکر فی الفتاویٰ روایۃ عن ابی یوسف ان الامام اذا خرج یوم الجمعۃ مقدار میل او میلین فحضرتہ الصلاۃ فصلی جاز “ جبکہ دوسرا عالم دین فرماتے ہیں کہ عصر حاضر میں ایسی جگہ اور مقام پر جو مصر یا فناء ِمصر میں سے نہ ہو یعنی صحتِ جمعہ کی دیگر شرائط اس میں مفقود ہوں تو محض کسی امیرِِ جماعت کی موجودگی کی وجہ سے صحت ِجمعہ کا قول محل نظر ہے کیونکہ فی زماننا کسی امیرِ جماعت کی حیثیت گزشتہ ادوار کے امراء و حکام کی طرح نہیں ہے، جس کو فقہاء متقدمین نے اپنی عبارات میں صحت جمعہ کیلئے مستدل بنائے ہیں ، کیونکہ اس کے امراء و حکام تنفیذ احکام کی صلاحیت رکھتے تھے،جب کہ آج کل کا امیر جو انتظامی امور چلانے کیلئے مقرر کیا جاتاہے، اس میں صلاحیت نہیں ، نہ اس کے اتنے اختیارات ہوتے ہیں۔ لہٰذا دور حاضر کے کسی امیر جماعت کو زمنِ سابقہ کے امیر اور حاکم پر قیاس کرکے صحت جمعہ کیلئے مستدل بنانا کسی طرح درست نہیں ؟ مذکورہ بالا مسئلہ کے متعلق ہمارے ہاں کوئی حل نہیں ہورہاہے، اس لئے حضرت والا کے حضور میں پیش خدمت ہے ۔ امید ہے کہ دلائل کی روشنی میں مفصل جواب تحریر فرماکر اپنی صوابِ رائے سے ہمیں ضرور مطلع فرمائیں گے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں دوسرے عالم دین کی بات درست ہے، کیوں  کہ جمعہ کے درست ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ شہر یا فنائے شہر میں جمعہ قائم کیا جائے، لہٰذا شہر کے باہر خالی میدان یا صحراء میں جو آبادی سے دور ہو اور مضافاتِ شہر میں بھی شمار نہ ہوتا ہو، ایسی جگہ میں جمعہ قائم کرنا درست نہیں ہے، باقی پہلے عالم ِ دین نے بدائع الصنائع کی جو عبارت نقل کی ہے( ” ذکر فی الفتاویٰ روایۃ عن ابی یوسف ان الامام اذا خرج یوم الجمعۃ مقدار میل او میلین فحضرتہ الصلاۃ فصلی جاز “)اس سے استدلال کرنا مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد  پر درست نہیں ہے:

1: امام کاسانیؒ نے یہ قول محض ذکر کیا ہے، اس کو راجح یا صحیح نہیں قرار دیا، اس کے فورا بعد ممانعت کا قول بھی ذکر کیا ہے،" وقال بعضهم: لا تجوز الجمعة خارج المصر منقطعا عن العمران."، لہٰذا  جب یہاں دونوں اقوال ہیں،تو ایسی صورت میں ظاہر الروایہ اور متون معتمدہ کا قول ہی راجح ہوگا۔

2 : نیز علامہ کاسانی رحمہ اللہ کے  اس قول کی  اصحاب تصحیح یا  ترجیح کی  جانب سے تصحیح یا ترجیح بھی مذکور نہیں ہے، جب کہ صحتِ جمعہ کے لیے شہر یا فنائے شہر کی قید پر تمام متون معتمدہ  متفق ہیں ، اور یہ ظاہر الروایہ بھی ہے، لہٰذا ایک مبہم قول کی وجہ سے قول مشہور و معتمد کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔

3: اگر اس قول کو درست اور مفتی بہ  مان بھی لیا جائے تو آج کے دور کے کسی امیر یا حکومتی نمائندہ کو اس پر قیاس کرنا درست نہیں ہے، کیوں کہ  مذکورہ عبارت میں امام سے مراد  خلیفۃ المسلمین یا اس کا نائب ہے،  جس کو خلیفہ کی جانب سے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہو، جب کہ موجودہ دور کے کسی امیرِ جماعت کو اتنے اختیارات حاصل نہیں ہوتے ہیں۔

لہٰذا شہر اور مضافاتِ شہر سے  دور کسی صحراء میں جمعہ منعقد کرنا درست نہیں ہے، بلکہ ظہر کی نماز ادا  کی جائے گی۔ہاں اگر فنائے مصر میں ہونا ثابت ہوجائے تو جمعہ اور عیدین قائم کرنا صحیح ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وهل تجوز صلاة الجمعة خارج المصر منقطعا عن العمران أم لا؟ ذكر في الفتاوى رواية عن أبي يوسف أن الإمام إذا خرج يوم الجمعة ‌مقدار ‌ميل أو ميلين فحضرته الصلاة فصلى جاز، وقال بعضهم: لا تجوز الجمعة خارج المصر منقطعا عن العمران، وقال بعضهم على قول أبي حنيفة وأبي يوسف يجوز، وعلى قول محمد لا يجوز، كما اختلفوا في الجمعة بمنى۔"

(کتاب الصلاۃ،فصل بيان شرائط الجمعة،ج:1،ص:260،ط:دارالکتب العلمیۃ)

ردالمحتار میں ہے:

"(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:

الأول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء مجتبى لظهور التواني في الأحكام وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض يقدر على إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى.

وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه فليحفظ (أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجي.

(و) الثاني: (السلطان) ولو متغلبا أو امرأة فيجوز أمرها بإقامتها لا إقامتها (أو مأمورة بإقامتها) ولو عبداولي عمل ناحية وإن لم تجز أنكحته وأقضيته."

(کتاب الصلاۃ،باب الجمعۃ،ج:2،ص:139،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100784

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں