بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شارک، ڈولفن، وہیل کے متعلق حکم


سوال

شارک مچھلی حلال نہیں کیونکہ وہ درندہ صفت ہے، تو وہیل مچھلی بھی تو چھوٹی مچھلیوں کو کھاتی ہے تو وہ حلال کیسے ہے؟ شاید ساری بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھاتی ہیں تو ساری درندہ صفت ہوئیں؟ اسی طرح ڈولفن کا دیوبند فتوی (جس کا لنک سوال کے نیچے ہے) میں حلال لکھا ہے لیکن آپکے فتوی نمبر 144110200379 میں ڈولفن کا لکھا ہے کہ حلال نہیں۔ تو ان دونوں میں سے صحیح کیا ہے۔ اور کیسے پتہ چلے گا کہ مچھلی کون سی ہے ،کون سی مچھلی نہیں؟ https://darulifta-deoband.com/home/ur/Food--Drinks/157626

جواب

1۔ واضح رہے کہ "شارک " جس کو عامی زبان میں ” مگرا‘‘  کہتے ہیں اور عربی زبان میں اس کو  ’’قرش“ اور  ” کوسج ‘‘ کہتے ہیں ،اس کے ناجائز اور حرام ہونے کی وجہ صرف "درندہ صفت" ہونا نہیں ہے جیسا کہ سائل نے ذکر کیا ہے،بلکہ  اس کے علادہ دیگر بھی کئی وجوہات ہیں۔نیز یہ بھی واضح رہے کہ سمندری مخلوقات میں سے صرف مچھلی حلال ہے ؛ لہذا اب  شارک ہو یا وہیل یا ڈولفن ،ان کے بارے میں مچھلی کے ماہرین کی رائے معتبر ہے کہ وہ مچھلی ہے یا نہیں؟ اہلِ لسان اورا ہلِ لغت کے بعد آخری رائے ماہرین ہی دے سکتے ہیں، لہٰذا سمندری مخلوق کی جو قسم اہلِ لغت اور ماہرین کے مطابق مچھلی کی قسم ٹھہرے گی وہ حلال ہوگی، اور جو مچھلی کی اقسام میں سے نہیں ہوگی وہ حلال نہیں ہوگی، لہٰذا فقہِ حنفی کے مطابق یہ سوال بنتا ہی نہیں کہ مچھلی کی کون سی قسمیں حرام ہیں؟،نیز جو بھی سمندری مخلوق اہلِ لغت اور ماہرین کی رائے کے مطابق مچھلی ہوگی،تو چاہے پھر وہ کتنی بڑی کیوں نہ ہو اور چاہے وہ چھوٹی مچھلیوں کو کھاتی ہو لیکن یہ اس کے حلال ہونے سے مانع نہیں ہوگا۔مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ ہو:

مگرا / شارک کھانے کا حکم

وہیل مچھلی سے متعلق تفصیلی فتوی کے لیے درج ذیل لنک  ملاحظہ ہو:

وہیل مچھلی کا حکم

تاہم ڈولفن سے متعلق ہمارے دار الافتاء کا یہی موقف ہے کہ اس میں مچھلی کی تمام شرائط نہیں پائی جاتیں اور نہ ہی ماہرین کے ہاں یہ مچھلی میں شمار ہوتی ہے؛ لہذا اس کا کھانا بھی حلال نہیں ہے۔

تفسیر روح المعانی میں ہے :

"وهو في الأصل تصغير قرش بفتح القاف اسم لدابة في البحر أقوى دوابه تأكل ولا تؤكل وتعلو ولا تعلى، وبذلك أجاب ابن عباس معاوية لما سأله: لم سميت قريش قريشاً؟ وتلك الدابة تسمى قرشاً كما هو المذكور في كلام الحبر."  

(سورۃ قریش، ج:15، ص:471، ط:دارالکتب العلمیة۔بيروت) 

تفسير الرازی میں ہے:

"أنه تصغير القرش وهو دابة عظيمة في البحر تعبث بالسفن، ولا تنطلق إلا بالنار."

(سورة قريش، ج:32، ص:296، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

لسان العرب میں ہے:

"والقِرْشُ: دَابَّةٌ تَكُونُ فِي الْبَحْرِ المِلْح؛ عَنْ كُرَاعٍ. وقُرَيشٌ: دابةٌ فِي الْبَحْرِ لَا تدَع دَابَّةً إِلا أَكلتها فَجَمِيعُ الدواب تخافُها."

(فصل القاف، ج:6، ص:335، ط:دار صادر - بيروت)

القاموس المحيط :

"القرش، وهو دابة بحرية تخافها دواب البحر كلها."

 (فصل القاف، ص:602، ط:مؤسسة الرسالة۔بيروت)

مجموعہ فتاویٰ مولانا عبدالحیٰ الکھنوی ؒ میں ہے :

"اسی طرح ” کوسج‘‘ اور قرش بھی مچھلیاں نہیں؛  کیوں کہ یہ امام شافعیؒ کے نزدیک مختلف فیہ ہیں، حال آں کہ وہ تمام بحری جانوروں کے کھانے کو جائز لکھتے ہیں ۔پھر وہ ہمارے نزدیک کس طرح جائز ہوسکتے ہیں؟ اورا س لیے کہ ان میں مچھلیوں کی مندرجہ بالا علامتوں میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی ۔مفتی فصیح الدین اپنے رسالہ ” احکام الحیوان“ میں لکھتے ہیں کہ ” قرش“ ایک بڑ اجانور ہے اس کو ”سیدالدواب“ کہتے ہیں ۔اورقریش لقب اسی سے ماخوذ ہے ۔ا ورسواحل بلاد مغرب میں اس کو ”اثرار موری“ کہتے ہیں ۔وہ امام صاحب کے نزدیک حرام ہے اور ائمہ ثلاث کے نزدیک حلال ۔ اور محمودشاہ ؒ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں ۔ ” السمک ماله شق وشوك“  مچھلی وہ ہےجس  کی دم کے دو ٹکڑے ہوں، اور جس میں کانٹے ہوں اوراسی میں ہے ۔

”والسمك ماله فلوس وما یبض في الماء وماله شقاق و یکون مولده ومعایشه في الماء ولیس له لسان“.  ”اصلاً مچھلی وہ ہے جس کے سفتے ہوں اور جو پانی میں سفید دکھائی دے اور جس کی دم کے دو ٹکڑوں ہوں۔اور اس کی پیدائش اور زندگی پانی میں ہو۔اور جس کی زبان نہ ہو"

اس سے معلوم ہوا کہ مچھلی کی سب سے مشہور علامت سفتے ہیں ۔۔۔  قرش اور کوسج کے اوپر سفتے نہیں ہوتے اور ان کی دم پھٹی نہیں ہوتی اور ان میں کانٹے نہیں ہوتے ۔اور انسان کے جسم کو تیز تلوار کی طرح کاٹ دیتے ہیں"۔

( مجموعہ فتاویٰ ۔22/229 ط : سعید کراچی ) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں