بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وہیل مچھلی کا حکم


سوال

وہیل مچھلی کھانا کیوں جائز نہیں حال آں کہ وہ بھی مچھلی ہے؟

جواب

وہیل (Whale) بھی ایک طرح کی مچھلی ہے، بعض لوگوں نے اس کا نام ”عنبر“ لکھا ہے، اورفقہاء نے تصریح کی ہے کہ مچھلی ہر قسم کی  حلال ہے، تو وہیل مچھلی بھی حلال ہے؛ بلکہ ”عنبر“ مچھلی  کے بارے میں تو حدیث میں یہ بھی آیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا گوشت تناول فرمایا:

الهدایة:

"ولایؤکل من حیوان الماء إلا السمك".

وفي البنایة: قال الکرخي -رحمه الله- کره أصحابنا کل ما في البحر إلا السمك خاصّة فإنه حلال أکله إلا ما طفي منه؛ فإنه کرهوه ... الخ (البنایة مع الهدایة، ۱۱/۶۰۴، بیروت) 

"أحکام القرآن" للجصاص  میں ہے :

" الأولیٰ: قوله تعالیٰ : ﴿ أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ ﴾ هذا حکم بتحلیل صید البحر، وهو کل ما صید من حیتانه ...الثالثة : قال أبو حنیفة : ... لایؤکل شيء من حیوان البحر إلا السمك، وهو قول الثوری في روایة أبي إسحاق الفزاري عنه".  ( 3/670) سورۃالمائدۃ آیت 96 ط :قدیمی ) 

"الدرمع الرد"میں ہے :

"(ولا) يحل (حيوان مائي إلا السمك) الذي مات بآفة ولو متولداً في ماء نجس ولو طافيةً مجروحةً، وهبانية، (غير الطافي) على وجه الماء الذي مات حتف أنفه. (قوله: ولو متولداً في ماء نجس) فلا بأس بأكلها للحال؛ لحله بالنص".(6/306۔307 کتاب الذبائح ط : سعید ) 

"بدائع الصنائع"  میں ہے :

" أما الذي يعيش في البحر فجميع ما في البحر من الحيوان محرم الأكل إلا السمك خاصةً؛ فإنه يحل أكله إلا ما طفا منه، وهذا قول أصحابنا - رضي الله عنهم-". ( 5/35 کتابالذبائح والصیود ط :سعید) 

(کفایت المفتی۔9-136)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں