بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیخ ابن العربی کون تھا؟


سوال

شیخ ابن العربی کون ہے ؟ کیا اسلامی تاریخ میں ان کا کوئی ذکر ملتا ہے یا نہیں ؟

جواب

شیخ اکبر ، محی الدین، محمد بن عبد اللہ  بن محمد المعافری الاشبیلی المالکی الحاتمی الطائی الاندلسی، ابوبکر ابن العربی  [المتوفی: ۵۴۳] (1240ء—1165ء)، دنیائے اسلام کے ممتاز صوفی، عارف، محقق، قدوہ علماءاور علوم کا بحرِ بے کنار ہیں۔  آپ کو  شیخ اکبر  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اور تمام مشائخ آپ کے اس مقام پر تمکین کے قائل ہیں، عام خیال یہ ہے کہ تصوفِ اسلامی  میں وحدت الوجود کا تصور سب سے پہلے انہوں نے ہی پیش کیا، ان کا قول مشہور ہے کہ باطنی نور خود رہبری کرتا ہے، بعض علماء نے ان کے اس عقیدے کو الحاد و زندقہ سے تعبیر کیا ہے، مگر صوفیاء انہیں شیخ اکبر  کہتے ہیں، اور محققین اہلِ علم نے ان کی تعریف و توثیق کی ہے۔

ان کی تصانیف کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے، جن میں ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’الفتوحات المکیہ‘‘ (4000 صفحات) بہت مشہور  ہیں۔ الفتوحات المکیہ 560  ابواب پر مشتمل ہے اور کتبِ تصوف میں اس کا درجہ بہت بلند ہے۔

الأعلام للزرکلی میں ہے:

"‌‌ابن العَرَبي(560 - 638 هـ = 1165 - 1240 م)

محمد بن علي بن محمد ابن العربي، أبو بكر الحاتمي الطائي الأندلسي، المعروف بمحيي الدين بن عربي، الملقب بالشيخ الأكبر: فيلسوف، من أئمة المتكلمين في كل علم. ولد في مرسية (بالأندلس) وانتقل إلى إشبيلية. وقام برحلة، فزار الشام وبلاد الروم والعراق والحجاز.

وأنكر عليه أهل الديار المصرية (شطحات) صدرت عنه، فعمل بعضهم على إراقة دمه، كما أريق دم الحلاج وأشباهه. وحبس، فسعى في خلاصه علي بن فتح البجائي (من أهل بجاية) فنجا.

واستقر في دمشق، فتوفي فيها. وهو، كما يقول الذهبي: قدوة القائلين بوحدة الوجود. ‌له ‌نحو ‌أربعمائة ‌كتاب ‌ورسالة منها (الفتوحات المكية - ط) عشر مجلدات، في التصوف وعلم النفس، و (محاضرة الأبرار ومسامرة الأخيار - ط) في الأدب، مجلدان."

(إبن العربي، ج: 6، ص: 281، ط: دار العلم للملايين)

مزید معلومات کے درج ذیل لنک کا استعمال کیجیے:

ابن العربی رحمہ اللہ کی کتابوں کے نام

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں