بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شعبان میں نفلی روزے رکھنا


سوال

پندرہ شعبان کے بعد نفلی روزے رکھ سکتےہیں، جیسے پیر ا ور جمعرات کے دن کے روزے؟

جواب

پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا اس شخص کے لیے مکروہ ہے جس نے شعبان کے نصفِ اول میں کوئی روزہ نہیں رکھا،  یہاں تک کہ جب نصفِ آخر شروع ہوا تو روزہ رکھنا شروع کردیا، نیز اس شخص کے لیے بھی پسندیدہ نہیں ہے جسے مسلسل روزے رکھنے کی وجہ سے کم زوری و ضعف لاحق ہوجائے اور پھر رمضان المبارک کے روزے رکھنا اس کے لیے مشکل ہوجائے۔

لہذا جو شخص ہر  پیر وجمعرات کو  یا ہر ماہ کے آخری تین دن روزہ رکھنے کا عادی ہو، یا شعبان کے نصفِ اول میں بھی وہ روزہ رکھتا ہو ، اس کے لیے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا بلا کراہت جائز ہے، البتہ اگر تیس شعبان پیر یا جمعرات کو نہ ہو، اور اس کا معمول مہینے کے آخری تین ایام روزے رکھنے کا بھی نہ ہو تو تیس شعبان کو خاص کرکے روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔

فتح القدیر(2 / 316)میں ہے:

"الثالث: ما أخرج الترمذي عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا بقى النصف من شعبان فلاتصوموا". وقال: حسن صحيح، لايعرف إلا من هذا الوجه على هذا اللفظ، ومعناه عند بعض أهل العلم: أن يفطر الرجل حتى إذا انتصف شعبان أخذ في الصوم".

تفصیل کے لیے درج ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیں :

شعبان کے مہینے کے آخر میں روزے رکھنا

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں