بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شعبان کے مہینے کے آخر میں روزے رکھنا


سوال

میرا ارادہ رمضان تک پے  در پے روزے رکھنے کا ہے،  لیکن کسی نے کہاکہ علماء سے سنا ہے کہ شعبان کے مہینے کا آخری روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے؟

جواب

شعبان کے مہینہ میں مطلقاً روزہ رکھنا منع نہیں ہے،  بلکہ شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا ثابت ہے،  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  فرماتی ہیں  کہ میں نے نہیں دیکھا کہ حضورﷺ نے کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں سوائے رمضان کے،  اور میں نے حضور اقدسﷺ کو نہیں دیکھا کہ شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی دوسرے مہینے میں (نفلی) روزے رکھے  ہوں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ چند ایام کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے  تھے۔

البتہ شعبان کے آخر میں روزہ رکھنے کی ممانعت سے متعلق دو قسم کی احادیث ہیں:

(1) حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے  کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب شعبان کا آدھا مہینہ گزر جائے تو روزے نہ رکھو ۔(ابو داؤد ، ترمذی ابن ماجہ ، دارمی)

اس حدیث میں روزہ رکھنے کی ممانعت کی وجہ :

1۔۔  امت کی آسانی و شفقت  کی وجہ سے ہے یعنی آپ ﷺ نے رمضان کے بالکل قریبی ایام میں روزے رکھنے سے اس لیے منع فرمایا ہے؛ تاکہ ان روزوں کی وجہ سے لوگوں کو ضعف و نا تو انی لاحق نہ ہوجائے، جس کی وجہ سے رمضان کے روزے دشوار اور بھاری ہو جائیں۔  جیسا کہ ان لوگوں کو جو قوت برداشت نہ رکھتے ہوں عرفہ کے دن روزہ نہ رکھنا مستحب ہے؛ تاکہ وہ روزہ کی غیر متحمل مشقت سے بچ کر اس دن ذکر و دعا میں مشغول رہیں۔

2۔۔ جس شخص کو  مسلسل روزے رکھنے کی وجہ سے عبادت میں قوت نہیں ہوتی  اور روزے کی دل جمعی  پیدا نہیں ہوتی اور اسے متواتر روزہ رکھنے کی طاقت میسر نہیں ہے، اس کے لیے رمضان سے پہلے روزے رکھنا مکروہ ہے، تاکہ رمضان میں اس کا نشاط اور چستی باقی رہے، اور وہ دل جمعی سے روزے رکھ سکے۔

3۔۔ پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا اس شخص کے لیے مکروہ ہے جس نے شعبان کے نصفِ اول میں کوئی روزہ نہیں رکھا،  یہاں تک کہ جب نصفِ آخر شروع ہوا تو روزہ رکھنا شروع کردیا۔

(2)  دوسری روایت : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے   کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا :  تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک دن یا دو دن قبل روزہ نہ رکھے، ہاں جو شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو وہ اس دن روزہ رکھ سکتا ہے۔ (بخاری ومسلم) 

اس حدیث میں ممانعت کی وجہ یہ ہےکہ:

1۔۔  نفل اور فرض دونوں روزوں کا اختلاط نہ ہو جائے اور اہلِ کتاب کے ساتھ مشابہت نہ ہو؛ کیوں کہ وہ فرض روزوں کے ساتھ دوسرے روزے بھی ملا لیتے تھے۔ 

2۔۔ احتیاط اور شک کی بنا پر رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھا جائے۔

3۔۔۔ فرض سے متصل نفل روزہ رکھنے سے فرض میں اضافے کا شائبہ پایا جاتاہے، چناں چہ فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کی سنن و نوافل اور فرض میں کچھ فصل کرنے یا جگہ بدل کر پڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فرض میں اضافے کا شائبہ نہ ہو۔

 حدیث کے آخری جز کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممانعت اس شخص کے حق میں نہیں ہے جو ان ایام میں روزہ رکھنے کا عادی ہو، مثلاً کوئی شخص پیر  یا جمعرات کے دن نفل روزہ رکھنے کا عادی ہو اور اتفاق سے شعبان کی انتیس یا تیس تاریخ اسی دن ہو جائے تو اس کے لیے اس دن روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہے،  ہاں جو شخص ان دنوں میں روزہ رکھنے کا عادی نہ ہو وہ نہ رکھے۔ 

خلاصۃ الحکم

لہذا   جو شخص ہر پیر وجمعرات کو  یا ہر ماہ کے آخری تین دن روزہ رکھنے کا عادی ہو، یا شعبان کے نصفِ اول میں بھی وہ روزہ رکھتا ہو ، اور اس کو روزہ رکھنے سے کم زوری اور نقاہت نہیں ہوتی  تو  اس کے لیے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا بلا کراہت جائز ہے اور اگر کسی شخص میں مذکورہ ممانعت کی وجوہات میں کوئی وجہ پائی جائے تو اس کے حق میں کراہت ہوگی۔

صحيح البخاري (3/ 38):
"عن أبي سلمة، أن عائشة رضي الله عنها، حدثته قالت: لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم يصوم شهرًا أكثر من شعبان، فإنه كان يصوم شعبان  كله".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 1376):
"(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا انتصف شعبان") أي إذا مضى النصف الأول منه "فلاتصوموا" أي بلا انضمام شيء من النصف الأول بلا سبب من الأحاديث المذكورة، وفي رواية: فلا صيام حتى يكون رمضان، والنهي للتنزيه رحمةً على الأمة أن يضعفوا عن حق القيام بصيام رمضان على وجه النشاط، وأما من صام شعبان كله فيتعود بالصوم ويزول عنه الكلفة، ولذا قيده بالانتصاف أو نهى عنه لأنه نوع من التقدم المقدم، والله أعلم. قال القاضي: المقصود استجمام من لايقوى على تتابع الصيام فاستحبّ الإفطار كما استحبّ إفطاره عرفة ليتقوى على الدعاء، فأما من قدر فلا نهي له، ولذلك جمع النبي صلى الله عليه وسلم بين الشهرين في الصوم اهـ وكلام حسن لكن يخالف مشهور مذهبه أن الصيام بلا سبب بعد نصف شعبان مكروه، وفى شرح ابن حجر: قال بعض أئمتنا: يجوز بلا كراهة الصوم بعد النصف مطلقًا تمسكًّا بأن الحديث غير ثابت أو محمول على من يخاف الضعف بالصوم، وردّه المحققون بما تقرّر أن الحديث ثابت بل صحيح، وبأنه مظنة للضعف، وما نيط بالمظنة لايشترط فيه تحققها. (رواه أبو داود والترمذي وابن ماجه والدارمي) قال ابن الهمام: أخرج الترمذي عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «إذا بقي النصف من شعبان فلاتصوموا»" وقال: حسن صحيح، لايعرف إلا من هذا الوجه، على هذا اللفظ، وقال ابن حجر: ولا نظر لقول أحمد: إنه منكر؛ لأنّ أبا داود سكت عليه في سننه مع نقله عنه في غيرها الإنكار، فكأنه لم يرتضه، ووجهه أنّ أحمد قال عن راويه: إنه ثقة لاينكر من حديثه إلا هذا، ولم يبين سبب إنكاره، فلم يقدح ذلك في ردّه، قال ابن الهمام: ومعناه عند بعض أهل العلم أن يفطر الرجل حتى إذا انتصف شعبان أخذ في الصوم".

فيض الباري على صحيح البخاري (3/ 334):
"قلت: والنهي عندي في الحديث الأول لمعنى شرعي، وفي الحديث الثاني إرشادًا وشفقةً فقط. فإن رمضان أمامه، فليتأهب له، وليترك الصيام لئلايضعف قبل رمضان. بخلاف الأول، فإن الناس اعتادوا به ويصومونه، وهذا يوجب هدر حدود الشرع والتخليط بينها، فأحب أن يبقى الفرض متميزًا عن النفل، فنهى عن صوم يوم أو يومين قبله.
وحاصله: أن النهي عن التقدم بيوم أو يومين مؤكد، بخلاف النهي عن الصوم من نصف شعبان، فإنه بالنظر إلى أهبته لرمضان، وذلك لأنّ ليلة القدر، وإن كانت في رمضان، إلا أنه يعلم من بعض الروايات أنها في النصف من شعبان، والوجه عندي أنها في رمضان، نعم بعض متعلقاتها وتمهيداتها من نصف شعبان، فيمكن أن يصوم أحد من نصف شعبان لهذا، فنهاه شفقة، ليستقبل شهر رمضان، وإنما كان النبي صلى الله عليه وسلم يصوم شعبان كلّه، أو أكثره لتتمكّن نساؤه بقضاء صيامهنّ، قبل أن يهجم عليهنّ رمضان، كما في الحديث".

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (8/ 471):

"وقال جمهور العلماء: يجوز الصوم تطوُّعًا بعد النصف من شعبان، وضعَّفوا الحديث الوارد فيه، وقال أحمد وابن معين: إنه منكر، وقد استدل البيهقي بحديث: "لايتقدمن أحدكم رمضان بصوم يوم أو يومين" الحديث، على ضعفه، فقال: الرخصة في ذلك بما هو أصح من حديث العلاء، وكذا صنع قبله الطحاوي، واستظهر بحديث ثابت عن أنس مرفوعًا: "أفضل الصيام بعد رمضان شعبان"، لكن إسناده ضعيف، واستظهر أيضًا بحديث عمران بن حصين: "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لرجل: هل صمت من سرر شعبان شيئًا؟ قال: لا، قال: فإذا أفطرت من رمضان فصم يومين"، ثم جمع بين الحديثين بأن حديث العلاء محمول على من يُضعفه الصوم، وحديث الباب مخصوص بمن يحتاط بزعمه لرمضان، وهو جمع حسن.
قال القاري: إذا مضى النصف الأول من شعبان فلاتصوموا بلا انضمام شيء من النصف الأول، أو بلا سبب من الأسباب المذكورة، والنهي للتنزيه رحمةً على الأمة أن يضعفوا عن حق القيام بصيام رمضان على وجه النشاط، وأما من صام شعبان كله، فيتعود بالصوم وتزول عنه الكلفة، ولذا قيده بالانتصاف، أو نهى عنه لأنه نوع من التقدم المقدم، والله أعلم".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں