بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہ شعبان میں روزے رکھنا


سوال

شعبان میں روزہ کے کیا فرائض ہیں؟

جواب

رسول اللہ ﷺ ماہ شعبان میں بہت کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے، اس لیے ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنا مسنون ہے، البتہ  پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا اس شخص کے لیے مکروہ ہے جس نے شعبان کے نصفِ اول میں کوئی روزہ نہیں رکھا،  یہاں تک کہ جب نصفِ آخر شروع ہوا تو روزہ رکھنا شروع کردیا، نیز اس شخص کے لیے بھی پسندیدہ نہیں ہے جسے مسلسل روزے رکھنے کی وجہ سے کم زوری و ضعف لاحق ہوجائے اور پھر رمضان المبارک کے روزے رکھنا اس کے لیے مشکل ہوجائے۔

لہذا جو شخص ہر  پیر وجمعرات کو  یا ہر ماہ کے آخری تین دن روزہ رکھنے کا عادی ہو، یا شعبان کے نصفِ اول میں بھی وہ روزہ رکھتا ہو ، اس کے لیے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا بلا کراہت جائز ہے، البتہ اگر تیس شعبان پیر یا جمعرات کو نہ ہو، اور اس کا معمول مہینے کے آخری تین ایام روزے رکھنے کا بھی نہ ہو تو تیس شعبان کو خاص کرکے روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔

فتح القدیر(2 / 316)میں ہے:

"الثالث: ما أخرج الترمذي عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا بقى النصف من شعبان فلاتصوموا". وقال: حسن صحيح، لايعرف إلا من هذا الوجه على هذا اللفظ، ومعناه عند بعض أهل العلم: أن يفطر الرجل حتى إذا انتصف شعبان أخذ في الصوم".

تفصیل کے لیے درج ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیں :

شعبان کے مہینے کے آخر میں روزے رکھنا

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200846

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں