بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد دوائی کھالی تو کفارہ کا حکم


سوال

میں سحری سے فارغ ہو گیا تھا   سحری کا وقت ختم ہو نے سے پہلے، لیکن میں دوائی  کھانا بھول گیا ،کچھ دیر کے بعد مجھے  یاد آیا کہ دوائی  کھانی ہے، تو جس وقت میں دوائی  کھا رہا تھا ،اس وقت فجر کی اذان ہو رہی تھی تو کیا مجھ پر کفارہ بھی لازم ہوگا؟

جواب

سحری کا وقت صبح صادق تک ہوتا ہے اور صبح صادق کے ساتھ سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ  میں اگر سائل کو معلوم تھا کہ سحری کا وقت ختم ہوگیا ہے،اس کے باوجود اس نےصبح صادق کے بعد  قصدًا دوائی کھالی تو اگر  بیماری یا شدید عذر کی بنا  پر دوا استعمال کی ہے  تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا، قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا، البتہ کسی ایسے عذر اور بیماری کے باعث دوا کھائی جس میں دوا کے بغیر بھی گزارہ ہوسکتا تھا  جان بوجھ   کر دوا کھا کر روزہ توڑدیا تو قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں  گے۔

لیکن اگر سائل کو معلوم نہیں تھا کہ روزہ کا وقت ختم ہوگیا ہے ، وہ سجھ رہا تھا کہ ابھی وقت باقی ہے اور اس نے دوائی کھالی ،پھر پتا  چلا کہ وقت ختم ہوچکا تھا تو اس صورت میں صرف قضا  لازم ہوگی ،کفارہ لازم نہیں ہوگا ۔

روزے  کے کفارے کی تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

روزے کا کفارہ

وفي الفتاوى الهندية:

"تسحر على ظن أن الفجر لم يطلع، وهو طالع أو أفطر على ظن أن الشمس قد غربت، ولم تغرب قضاه، ولا كفارة عليه؛ لأنه ما تعمد الإفطار كذا في محيط السرخسي." (1/ 194ط:دار الفكر)

وفيه أيضا:

"إذا أكل متعمدًا ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة، وهذا إذا كان مما يؤكل للغذاء أو للدواء فأما إذا لم يقصد لهما فلا كفارة وعليه القضاء، كذا في خزانة المفتين". (1/ 205ط:دار الفكر)

وفيه أيضا:

"(ومنها المرض) المريض إذا خاف على نفسه التلف أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع، وإن خاف زيادة العلة وامتدادها فكذلك عندنا، وعليه القضاء إذا أفطر، كذا في المحيط. ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة ظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق، كذا في فتح القدير. والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض، هكذا في التبيين. ولو كان له نوبة الحمى فأكل قبل أن تظهر الحمى لا بأس به، كذا في فتح القدير". (1/ 207ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144209200733

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں