جس طرح ہر پرائیوٹ سکول ماہانہ فیس ایڈوانس میں لیتا ہے، اسی طرح ہمارا اسکول بھی داخلے کے وقت داخلہ فیس کے ساتھ ماہانہ فیس پیشگی لیتا ہے، اب دو سوالات ہیں؟ جب بچہ تعلیم مکمل کرلے یا کسی اور وجہ سے اسکول چھوڑے، تو کیا جس ماہ اسکول چھوڑ رہا ہے اس مہینے کی فیس لینی چاہئے یا نہیں؟
دوسری بات :اگر مہینے کے شروع ہونے سے پہلے بتائے تو پھر اگلے مہینے کی فیس نہیں لگائی جاتی ، لیکن یکم کے بعد اگر مطلع کیا جائے تو فیس لگائی جاتی ہے، کیونکہ بچوں کی تعداد کے پیش نظر ہی اسکول کی عمارت اور اساتذہ کی تعداد ہائر ( بھرتی ) کی جاتی ہے، اور عام اسکولوں میں متوسط طبقے کے بچے پڑھتے ہیں جن کے والدین بروقت فیس ادا نہیں کر پاتے ،جس کی وجہ سے تعلیمی ادارہ سارا سال مالی پریشانیوں کا شکار رہتا ہے،اور جب کئی ماہ کے بعد ادائیگی کے لیے آئیں تو یا تو قسط کرواتے ہیں یا رعایت کرنے پر بضد ہوتے ہیں ( جن اسکولوں کی من مانی اور گراں فیسوں کے سوشل میڈیا پر چرچے ہیں، وہ برانڈ کے مہنگے اسکول امیر طبقے کے لیے ہوتے ہیں) تو کیا یہ ایڈوانس فیس لینا جائز ہے؟ اور اخراج کے وقت کی فیس کا بھی بتائیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر ادارے کا یہ ضابطہ ہے کہ وہ ایڈوانس فیس لیتا ہے،تو ادارے والوں کے لیے ایڈوانس فیس لینے کی گنجائش ہوگی، اور اسی طرح اگر اسکول والوں نے یہ واضح کردیا تھا کہ بچے کے اخراج کے وقت خواہ مہینے کا درمیان ہو یا آخر میں پوری فیس بہرصورت لی جائے گی ،اور اس کا رواج بھی ہو کہ مہینے کے درمیان یا آخر میں اسکول سے چلے جانے والے بچےسے پورے مہینے کی فیس لی جاتی ہو تو مہینے کے درمیان یا آخر میں بچےکے اسکول چھوڑدینے سے فیس لینا درست ہوگا، اوراگر اسکول والوں نے نہ وضاحت کی ہو نہ ہی اس کا رواج ہو تو اسکول چھوڑنے پر اس مہینے کی فیس لینا درست نہیں ہوگا،البتہ جتنے دن بچہ سکول آیا ہے،اسی کی بقدر فیس لی جا سکتی ہے۔
باقی داخلہ فیس کے حکم سے متعلق تفصیل درج ذیل لنک میں ملاحظہ کیجیے:
فتح القدیر میں ہے:
"لا يستوجب الأجر قبل الفراغ لما بينا. قال: (إلا أن يشترط التعجيل) لما مر أن الشرط فيه لازم."
(كتاب الإجارات، باب الأجر متى يستحق، ج:9، ص:74، ط: دار الفكر)
غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:
"السادسة العادة المحکمة۔۔۔۔واعلم ان العادة العرف رجع الیہ فی مسائل کثیرة حتی جعلوا ذلک اصلا........ الخ."
(القاعدة السادسة العادة محكمة، ج:1، ص:295، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ ہے:
"قالوا الأجير المشترك من يستحق الأجر بالعمل لا بتسليم نفسه للعمل والأجير الخاص من يستحق الأجر بتسليم نفسه وبمضي المدة ولا يشترط العمل في حقه لاستحقاق الأجر وبعضهم قالوا الأجير المشترك من يتقبل العمل من غير واحد والأجير الخاص من يتقبل العمل من واحد… والأوجه أن يقال الأجير المشترك من يكون عقده واردا على عمل معلوم ببيان عمله والأجير الخاص من يكون العقد واردا على منافعه ولا تصير منافعه معلومة إلا بذكر المدة أو بذكر المسافة. كذا في التبيين."
(كتاب الإجارة، الباب الثامن والعشرون في بيان حكم الأجير الخاص والمشترك، ج:4، ص:500، ط: رشیدية)
بنایہ میں ہے:
"استأجر إنسانا ليعلم غلامه أو ولده شعرا أو أدبا أو حرفة مثل الخياطة ونحوها فالكل سواء إن بين المدة سواء بأن استأجره شهرا ليعلمه هذا العلم يجوز ويصح وينعقد العقد على المدة حتى تستحق الأجرة فعلم أو لم يتعلم إذا سلم الأستاذ نفسه لذلك أما إذا لم يبين المدة فينعقد لكن فاسدا، حتى لو علم استحق أجر المثل وإلا فلا.
وكذلك تعلم سائر الأعمال كالخط والهجاء والحساب على هذا، ولو شرط عليه أن يحذقه في ذلك العمل فهو غير جائز، لأن التحذيق ليس في وسع المعلم."
(كتاب الإجارات، باب الإجارة الفاسدة، ج:10، ص:282، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501101714
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن