بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سر منڈوانے کا حکم؟


سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ سر کے بال مکمل طور پر منڈوانا کیسا ہے؛ کیوں کہ ہر وہ کام جسے جناب نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں ایک دفعہ بھی کیا ہے  وہ سنت کے حکم میں ہے،  اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ  وغیرہ کے مواقع پر سر منڈوایا ہے تو اس طرح سر منڈوانا بھی سنت ہے؟

جواب

      حج اور عمرہ کے علاوہ بھی پورے سر کے بال  منڈوانا بغیر کسی کراہت کے جائز ہے اور اس پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ لیکن  چوں کہ مکمل سر منڈوانا  آپ  علیہ السلام کا  دائمی عمل نہیں تھا، حج وعمرہ کے علاوہ سرمنڈوانے کا ذکر نہیں،  بلکہ آپ ﷺ کا عمومی معمول کان کی لو تک بال رکھنے کا تھا؛ اس  لیے  سر منڈوانا اس معنی میں  (یعنی: دائمی عمل کے اعتبار سے)  سنت نہیں۔ البتہ اس کو سنت  اس اعتبار سے کہنا صحیح ہوگا  کہ یہ سنت (حدیث) سے ثابت ہے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ  ہر وہ عمل جو رسول اللہ ﷺ  سے ثابت ہو، اصطلاحی  اعتبار سے اس کا سنت ہونا ضروری نہیں ہے۔ 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ: جب سے مجھے پتہ چلا ہے کہ ہر بال کے نیچے جنابت ہے  اس وقت سے میں بالوں کا دشمن بن گیا ہو۔ آپ رضی اللہ عنہ ہمیشہ   سر کے بال منڈوایا کرتے تھے ،  لیکن  آپ رضی اللہ عنہ کے اس عمل  پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی نکیر نہیں  فرمائی تو   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کام پر خاموش رہنا،  یہ  سرمنڈوانے کے جواز   اور  اس پر  مداومت  کے جواز   کی دلیل ہے۔

     اسی طرح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک بچے کو دیکھا جس کے  سر کا کچھ حصہ مونڈا ہوا تھا اور کچھ چھوڑ دیا گیا تھا، آپ نے فرمایا : سارا سر مونڈ دو  یا سارا چھوڑ دو۔  آپ علیہ الصلاة والسلام نے  "قزع"  (یعنی: کچھ بال منڈوانا اور کچھ چھوڑنا حیسے آج کل انگریزی بال ہیں)  کو ناپسند فرمایا اور  منڈوانے یا برابر رکھنے کا حکم فرمایا،  معلوم ہوا کہ سرمنڈوانے کا حکم رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ (اس میں  عبرت ہے ان لوگوں کے  لیے جو خود انگریزی بال رکھتے ہیں اور  سر منڈوانے والوں پر نکیر  کرتے ہیں)۔

اسی  طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود  حجام کو بلا کر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے بال منڈوائے۔نیز  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث ہے کہ جب  تم میں سے کسی کا قربانی کا ارادہ  ہو تو وہ   عشرہ ذی الحجہ میں نہ اپنے ناخن کاٹے اور نہ اپنے بالوں کو منڈوائے تو  اس کا مطلب ہے کہ آپ علیہ السلام کے زمانے میں بال منڈوانے کا دستور تھا؛  اس  لیے حلق (منڈوانے) سے منع فرمایا۔ 

اور  اس کے علاوہ حضرت ابوذر غفاری اور حضرت عبداللہ بن عمر رضوان اللہ علیہم  بھی سر منڈوایا کرتے تھے، حال آں کہ ان دونوں  حضرات  پر  اتباعِ سنت کا غلبہ  مشہور ہے، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ سر منڈوانا  خلافِ سنت کام نہیں۔  اور  مسلمانوں کا تعامل بھی اس کے جواز  کی دلیل ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی کے لیے بال رکھ کر ان کا خیال رکھنا مشکل ہو تو اس کے لیے سر منڈوانا افضل ہے، اور جو بال رکھ کر ان کا خیال رکھ سکتا ہو اس کے لیے سنت کے مطابق بال رکھنا افضل ہے۔

مزید دیکھیے:

کیا سر کے بالوں منڈانا مکروہ ہے؟

کیا ہمیشہ سر منڈوانا خوارج کی علامت ہے؟

"عن ابن عمر: أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى صبيًّا قد حلق بعض شعره، و تركبعضه، فنهاهم عن ذلك، و قال: "احلقوا كله أو اتركوا كله."

أخرجه أبوداود في سننه في « باب في الذؤابة» (6/ 261) برقم (4195)، ط: دار الرسالة العالمية، الطبعة: الأولى، 1430 هـ =2009 م.

"و قوله: احلقوه كله: يدل على جواز الحلق، و هو مذهب الجمهور."

(فيض القدير: «حرف الهمزة» (1/ 201)،ط. المكتبة التجارية الكبرى، مصر، الطبعة: الأولى: 1356)

"و قد جاء في سنن أبي داود بإسناد صحيح «أنه صلى الله تعالى عليه وسلم رأى صبيًّا قد حلق بعض رأسه فقال: احلقوه كله أو اتركوه كله»، و هذا صريح في إباحة حلق الرأس لايحتمل تأويلًا، انتهى. و قديناقش في استدلاله على أصول مذهب النووي بأنه يجوز عندهم تمكين الصغير بما يحرم على البالغ كالحرير و الذهب، فليتأمل."

(حاشية السندي على ابن ماجه باب في ذكر الخوارج (1/ 75)،ط. دار الجيل – بيروت)

"وَ قَوله: احْلقُوا كُله : دَلِيل على جَوَاز حلق الرَّأْس من غير كَرَاهِيَة."

(كشف المشكل من حديث الصحيحين (2/ 557) برقم (1149/ 1378)،ط. دار الوطن – الرياض)

"عن ابن المسيب، أن أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من أراد أن يضحي فلايقلم من أظفاره، و لايحلق شيئًا من شعره في عشر الأول من ذي الحجة»."

أخرجه النسائي في كتاب الضحايا (7/ 212) برقم (4312)، ط. مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب،الطبعة: الثانية، 1406 = 1986۔

"قوله: احلقوا كلَّه أو اتركوا كلَّه": هذا تصريح منه صلى الله عليه وسلم بأن الحلقَ في غير الحج والعمرة جائزٌ، وتصريحٌ بأن الرجلَ مخيَّر بين الحلق وتركه."

(المفاتيح شرح المصابيح: باب الترجيل (5/ 41)،ط. دار النوادر، وهو من إصدارات إدارة الثقافة الإسلامية - وزارة الأوقاف الكويتية،الطبعة: الأولى، 1433 هـ - 2012 م)

"عن علي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من ترك موضع شعرة من جنابة لم يغسلها فعل به كذا وكذا من النار" قال علي: فمن ثم عاديت رأسي فمن ثم عاديت رأسي، ثلاثا، وكان يجزّ شعره."

( أخرجه أبوداود في سننه في «باب الغسل من الجنابة» (1/ 181) برقم (249)،ط. : دار الرسالة العالمية،الطبعة: الأولى، 1430 هـ =2009 م)

" (فمن ثم عاديت رأسي) : أي: فعلت برأسي ما يفعل بالعدو من الاستئصال وقطع دابره ". قال الطيبي: وفيه أن المداومة على حلق الرأس سنة، لأنه صلى الله عليه وسلم قرره، ولأن عليا رضي الله تعالى عنه من الخلفاء الراشدين الذين أمرنا بمتابعة سنتهم اهـ.۔

و لايخفى أن فعله كرم الله وجهه إذا كان مخالفا لسنته صلى الله عليه وسلم وبقية الخلفاء من عدم الحلق إلا بعد فراغ النسك - يكون رخصة لا سنة، والله تعالى أعلم."

(مرقاة المفاتيح: باب الغسل (2/ 430)،ط. دار الفكر، بيروت، الطبعة: الأولى، 1422هـ - 2002م)

" (يجزه) أي من أن يجزه بتشديد المعجمة وهو قص الشعر والصوف واستدل بالحديث على جواز حلق الرأس وجزه لأنه صلى الله عليه وسلم أقر عليًّا على ذلك ولأنه من جملة الخلفاء الراشدين المأمور الناس بالاقتداء بهم والتمسك بسنتهم."

(حاشية السندي على ابن ماجه باب تحت كل شعرة جنابة (1/208)،ط. دار الجيل – بيروت)

"عن عبد الله بن جعفر: أن النبي صلى الله عليه وسلم أمهل آل جعفر ثلاثا أن يأتيهم، ثم أتاهم، فقال: "لاتبكوا على أخي بعد اليوم" ثم قال: "ادعوا لي بني أخي" فجيء بنا كأنا أفرخ، فقال: "ادعوا لي الحلاق" فأمره، فحلق رؤوسنا."

(أخرجه ابوداود في سننه في « باب في حلق الراس» (6/259) برقم (4192)،ط. : دار الرسالة العالمية الطبعة: الأولى، 1430 هـ =2009 م)

"و في هذا الحديث دليل على إباحة حبس الشعر والجمم والوفرات والحلق أيضا مباح لأن الرسول صلى الله عليه وسلم حلق رؤوس بني جعفر بن أبي طالب بعد أن أتاه خبر قتله بثلاثة أيام، ولو لم يجز الحلق ما حلقهم، والحلق في الحج نسك، ولو كان مثله كان كما قال من قال ذلك ما جاز في الحج ولافي غيره لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المثلة، وقد أجمع العلماء في جميع الآفاق على إباحة حبس الشعر وعلى إباحة الحلاق وكفى بهذا الحجة."

(التمهيد لابن عبد البر: باب الهاء، هشام بن عروة بن الزبير بن العوام،الحديث الثالث عشر (22/ 138)،ط. وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية – المغرب، عام النشر: 1387 هـ)

"الأحنف بن قيس قال: قدمت المدينة فدخلت مسجدها، فبينا أنا أصلي إذ دخل رجل طويل آدم أبيض اللحية و الرأس، محلوق يشبه بعضه بعضًا، فخرجت فاتبعته، فقلت: من هذا؟ قالوا: أبو ذر."

(أخرجه ابن أبي شيبة في «من كان يبيض لحيته ولا يخضب» (5/ 186) برقم (25056)،ط. مكتبة الرشد - الرياض۔الطبعة الأولى ، 1409)

"عن نافع عن بن عمر أنه ضحى بالمدينة و حلق رأسه."

(أخرجه ابن أبي شيبة في باب «في حلق الرأس بغير منى يوم النحر» (3/ 247) برقم (13890)،ط. مكتبة الرشد - الرياض،الطبعة الأولى ، 1409)

" و العادة في هذا الزمان في أكثر البلاد حلق الرأس للرجل، عملًا بقوله صلى الله عليه وسلم: "تحت كل شعرة جنابة، فخلّلوا الشعر، وأنقوا البشرة". وإنما قلنا: للرجل: لأنّ حلق شعر المرأة مثلة، وهي حرام، كما أنَّ حلق لحية الرجل كذلك، فقوله: {لَتَدْخُلُنَّ}إشارة إلى أداء الحج."

(حدائق الروح والريحان (27/ 303) سورة الفتح(الآية:27)، ط. دار طوق النجاة، بيروت، الطبعة: الأولى، 1421 هـ - 2001 م)

"هل يَجْتَرِىءُ أحدٌ أن يَحْكُمَ بالكراهة على أمرٍ فعله النبيُّ صلى الله عليه وسلّم."

(فيض الباري شرح البخاري:باب صوم الدهر (3/ 361)،ط.دارالكتب العلمية،الطبعة الاولى، 2005م)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200219

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں