بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ہمیشہ سر منڈوانا خوارج کی علامت ہے؟


سوال

 ہمیشہ سر منڈوانا خوارج کی علامت ہے؟

جواب

بعض احادیثِ مبارکہ میں اگرچہ خوارج کی ایک نشانی سرمنڈوانا بھی بتائی گئی ہے، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہر وہ شخص جو سر منڈوائے وہ خارجی ہوگا، یا سر منڈوانا یا مستقل سر منڈوانے کی عادت بنانا ناجائز ہو ، بلکہ بال رکھنا جس طرح سنت ہے، اسی طرح بال کاٹنے کو بھی بعض محدثین نے اور بالخصوص ہمارے فقہاءِ کرام نے سنت کہا ہے، اور ہر جمعہ بالوں کے حلق کو مستحب کہا گیا ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ  رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرکے کہ ’’جنابت کے غسل میں اگر ایک بال بھی خشک رہ گیا تو اس کا غسل نہیں ہوگا۔۔۔الخ‘‘  فرماتے ہیں: اسی وجہ سے میں نے اپنے  بالوں سے دشمنی کرلی ، یعنی انہیں خوب جڑ سے کاٹتا ہوں،  اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ سر کے بال حلق کیا کرتے تھے، علامہ طیبی رحمہ اللہ نے اس سے استدلال کیا ہے کہ جس طرح بال رکھنا سنت ہے اسی طرح بالوں کو خوب اچھی طرح  کاٹنا بھی سنت  ہے، ایک تو  اس لیے  کہ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل کو دیکھا اور اس پر سکوت  فرمایا،  گویا یہ آپ ﷺ کی تقریر ہے، اور اہلِ علم جانتے ہیں کہ قول  اور فعل کی طرح تقریرِ رسول اللہ ﷺ بھی حدیث ہی ہوتی ہے۔ نیز خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ خلفائے راشدین میں سے ہیں جن کی سنتوں کے اتباع کا بھی ہمیں حکم ہے۔

تاہم ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے اس  کو سنت  کہنے پر اشکال کیا ہے اور حلق کو رخصت کہا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہی معمول رہا اور کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر کبھی نکیر نہیں کی۔

علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء فرماتے ہیں : اگر کسی شخص کے لیے  بال رکھ کر اس میں تیل لگانا اور خیال کرنا مشکل ہو تو  اس کے لیے حلق مستحب ہے، اور جس کے لیے  بالوں کا خیال رکھنا مشکل نہ ہو  ان کے لیے بال رکھنا افضل ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود خلیفہ راشد ہیں، اور ’’خوارج‘‘  وہ گم راہ فرقہ ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا، اور رسول اللہ ﷺ نے خوارج کی علامات حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے ارشاد فرمائی تھیں؛ تاکہ وہ اس باغی گروہ کو اچھی طرح پہچانیں،  یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقابلے میں انہیں (خوارج کو) زیادہ جانتے تھے،  اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں آپ رضی اللہ عنہ نے خوارج کے گم راہ ہونے پر استدلال بھی کیا، اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معمول سر منڈوانے کا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ نفسِ سر منڈوانا خارجی ہونے کی علامت نہیں ہے، بلکہ اس وقت کے خوارج کے خاص گروہ میں من جملہ دیگر علامات کے ایک علامت یہ بھی پائی جاتی تھی۔

صحيح البخاري ـ حسب ترقيم فتح الباري (9/ 198):
"عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: يخرج ناس من قبل المشرق ويقرؤون القرآن لايجاوز تراقيهم يمرقون من الدين، كما يمرق السهم من الرمية، ثم لايعودون فيه حتى يعود السهم إلى فوقه، قيل: ما سيماهم؟ قال: سيماهم التحليق ، أو قال: التسبيد".

سنن أبي داود (1/ 65):
"عن علي رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ترك موضع شعرة من جنابة لم يغسلها فعل بها كذا وكذا من النار». قال علي: فمن ثم عاديت رأسي ثلاثاً، وكان يجز شعره".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 430):
"(عاديت رأسي) : مخافة أن لا يصل الماء إلى جميع شعري، أي: عاملت مع رأسي معاملة المعادي مع العدو، من القطع والجز، فجززته وقطعته، وروى الدارمي وأبو داود في آخر هذا الحديث: أنه كان يجز شعره، وقيل: عاديت رأسي، أي: شعري، كذا نقله السيد جمال الدين. وعن أبي عبيدة: عاديت شعري رفعته عند الغسل (فمن ثم عاديت رأسي) : أي: فعلت برأسي ما يفعل بالعدو من الاستئصال وقطع دابره ". قال الطيبي: وفيه أن المداومة على حلق الرأس سنة؛ لأنه صلى الله عليه وسلم قرّره، ولأن علياً رضي الله تعالى عنه من الخلفاء الراشدين الذين أمرنا بمتابعة سنتهم اهـ.
ولايخفى أن فعله كرم الله وجهه إذا كان مخالفاً لسنته صلى الله عليه وسلم وبقية الخلفاء من عدم الحلق إلا بعد فراغ النسك  يكون رخصةً لا سنةً، والله تعالى أعلم. ثم رأيت ابن حجر نظر في كلام الطيبي، وذكر نظير كلامي، وأطال الكلام فيه".

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (3/ 814):
"((وكان علي رضي الله عنه يجز شعره))، وفيه أن المداومة علي حلق الرأس سنة؛ لأنه صلى الله عليه وسلم قرره علي ذلك، ولأنه رضوان الله عليه من الخلفاء الراشدين المهديين الذين أمرنا بإتباع سنتهم، والعض عليها بالنواجذ".
شرح النووي على مسلم (7/ 167):
" قال أصحابنا: حلق الرأس جائز بكل حال، لكن إن شق عليه تعهده بالدهن والتسريح استحب حلقه، وإن لم يشق استحب تركه".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 407):
" وأما حلق رأسه ففي الوهبانية وقد قيل:
حلق الرأس في كل جمعة ... يحب وبعض بالجواز يعبر.
(قوله: وأما حلق رأسه إلخ) وفي الروضة للزندويستي: أن السنة في شعر الرأس إما الفرق أو الحلق. وذكر الطحاوي: أن الحلق سنة، ونسب ذلك إلى العلماء الثلاثة".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 525):
"وأما حلق الرأس ففي التتارخانية عن الطحاوي: أنه سن عند أئمتنا الثلاثة اهـ وفي روضة الزندويستى: السنة في شعر الرأس أما الفرق وأما الحلق اهـ يعني حلق الكل إن أراد التنظيف، أو ترك الكل ليدهنه ويرجله ويفرقه؛ لما في أبي داود والنسائي عن ابن عمران أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى صبياً حلق بعض رأسه وترك بعضه فقال صلى الله عليه وسلم: "احلقوه كله أو اتركوه كله". وفي الغرائب: يستحب حلق الشعر في كل جمعة". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں