بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سات ماہ کا حمل ضائع کرنا


سوال

میری اہلیہ سات ماہ کے پیٹ سے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ 6ماہ پر الٹراساؤنڈ کروایا تھا تو رپورٹ میں بہت سے مسائل سامنے آئے تھے:

1۔ بچہ ایب نامل ہے، اس کے ہاتھ پیر چھوٹے ہیں۔ 

2۔ ماں کے پیٹ میں جو واٹر بیگ ہوتا ہے، اس میں پانی کی کمی ہے۔

3۔   بچہ کو آکسیجن  صحیح نہیں مل رہی ہے۔

4۔ اول نال بہت نیچے ہے، جس کی وجہ سے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ بہت خطرہ  کی بات ہے، اس وجہ سے بہت احتیاط کریں،  ہم نے کافی احتیاط بھی کری ہے اور روحانی علاج بھی کروایا ہے،  لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا ہے،  کل بروز جمعہ  13 مارچ 2021 کو دوبارہ الٹرا ساؤنڈ کروایا جس  ہمیں وہی رزلٹ ملا ہے، جو 6 ماہ پر آیا تھا، یعنی اس کے ہاتھ پیر چھوٹے ہیں، جو کہ ایک بیماری  کی وجہ سے ہوتے ہیں، جس کا نام ہے:  (SKELETAL DYDPLASIA)، سو کچھ بھی ہوسکتا ہے، ڈاکٹر نے کہا ہے کہ میں اپنی اہلیہ کا نام  کسی بڑے اسپتال میں بھی  لکھوا دوں، کیوں کہ اہلیہ کے  لیے بہت خطرے کی بات ہے، کیوں کہ بہت سارے مسائل جمع ہوگئے ہیں،  اور بہت کریٹکل معاملہ ہے، لہذا اب ہم ابورشن ( اسقاط ) کا سوچ رہے ہیں، کیوں کہ بچہ بھی معذور ہے، اور ولادت کے دروان اہلیہ کی جان کو بھی خطرات لاحق ہیں۔

موجودہ صورتِ حال میں کیا ہمارے  لیے اسقاط  کی شرعًا اجازت ہوگی؟ ملحوظ رہے کہ  اسقاط کا یہ فیصلہ ہم میاں بیوی کا ہے، کیوں کہ پیدائش کے وقت اہلیہ کی جان کو بھی خطرات لاحق ہیں، اور بچہ بھی معذور ہے۔

جواب

حمل چار ماہ سے کم کا ہو اور دین دار اورماہر ڈاکٹر  کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت حمل کاتحمل نہیں کرسکتی تو اسقاطِ  حمل کی گنجائش ہوتی ہے، البتہ چار ماہ ( جس میں انسانی اعضاء وجود میں آجاتے ہیں)  کے بعد اسقاط کی شرعًا اجازت نہیں ہوتی، لہذا صورتِ مسئولہ میں 7 ماہ کے حمل کو  باہمی رضامندی سے  بھی ضائع  کرنا شرعًا جائز نہیں ہے۔ مزید تفصیل کے  لیے دیکھیے:

بیماری کے اندیشے کی وجہ سے اسقاطِ حمل

چھ ماہ کے حمل کو ضائع کرنے پر ضمان کا حکم

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں