بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کے اندیشے کی وجہ سے اسقاطِ حمل


سوال

ایک الٹراساؤنڈ کے ذریعہ یقینی معلوم ہو کہ بچہ ابنارمل ہے اور اس کے دماغ میں پانی ہے اور چہرہ وغیرہ صحیح نہیں ہے اور ماہرین کے مطابق ایسے بچے ولادت کے بعد ایک دن زندہ رہتے ہیں تو کیا پانچ ماہ حمل کے بعد ایسے بچے کا اسقاط حمل جائز ہے یانہیں؟

جواب

حمل کو چار ماہ یعنی 120 دن گزرنے کے بعد چوں کہ اللہ رب العزت اس میں روح ڈال دیتا ہے؛ جس کی وجہ سے ایسے حمل کا اسقاط حرام ہے، اور یہ ایسے ہی ہے جیسے زندہ بچے کو درگور کردیا جائے۔

نیز الٹرا ساؤنڈ میں بچے کی کسی بیماری کا علم یقینی نہیں، بلکہ گمان کے درجے میں ہوتا ہے، اور اگر یقینی بھی ہو تو خالقِ کائنات بقیہ مدت میں اس مرض سے نجات دینے پر قدرت رکھتا ہے اور بالفرض آخر وقت تک بھی بچہ مذکورہ مرض میں مبتلا رہے، پھر بھی اس کا اسقاط جائز نہیں؛ کیوں کہ بیمار انسان کو مارنا جائز نہیں، اگر اب اسقاط کیا گیا تو یہ قتلِ جنین ہے، جس کی وجہ سے ماں باپ پر عُقل (بطورِ تاوان پانچ سو درہم) لازم ہوگا؛  لہذا اگر حمل کو چار ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں (جیساکہ سوال سے معلوم ہوتاہے) تو کسی صورت آپ کے لیے حمل ساقط کرنے کی اجازت نہیں ہے، اللہ رب العزت سےصحت یابی کی دعا کریں اور اس سے اچھی امید رکھیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَكَذَلِكَ الْمَرْأَةُ يَسَعُهَا أَنْ تُعَالَجَ لِإِسْقَاطِ الْحَبَلِ مَا لَمْ يَسْتَبِنْ شَيْءٌ مِنْ خَلْقِهِ وَذَلِكَ مَا لَمْ يَتِمَّ لَهُ مِائَةٌ وَعِشْرُونَ يَوْمًا ثُمَّ إذَا عَزَلَ وَظَهَرَ بِهَا حَبَلٌ هَلْ يَجُوزُ نَفْيُهُ؟ قَالُوا إنْ لَمْ يَعُدْ إلَى وَطْئِهَا أَوْ عَادَ بَعْدَ الْبَوْلِ وَلَمْ يُنْزِلْ جَازَ لَهُ نَفْيُهُ وَإِلَّا فَلَا كَذَا فِي التَّبْيِينِ."

(كتاب النكاح، الْبَابُ التَّاسِعُ فِي نِكَاحِ الرَّقِيقِ، ١ / ٣٣٥، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَإِنْ أَسْقَطَتْ بَعْدَ مَا اسْتَبَانَ خَلْقُهُ وَجَبَتْ الْغُرَّةُ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. الْعِلَاجُ لِإِسْقَاطِ الْوَلَدِ إذَا اسْتَبَانَ خَلْقُهُ كَالشَّعْرِ وَالظُّفْرِ وَنَحْوِهِمَا لَا يَجُوزُ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُسْتَبِينِ الْخَلْقِ يَجُوزُ وَأَمَّا فِي زَمَانِنَا يَجُوزُ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ. وَفِي الْيَتِيمَةِ سَأَلْت عَلِيَّ بْنَ أَحْمَدَ عَنْ إسْقَاطِ الْوَلَدِ قَبْلَ أَنْ يُصَوَّرَ فَقَالَ أَمَّا فِي الْحُرَّةِ فَلَا يَجُوزُ قَوْلًا وَاحِدًا وَأَمَّا فِي الْأَمَةِ فَقَدْ اخْتَلَفُوا فِيهِ وَالصَّحِيحُ هُوَ الْمَنْعُ كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة."

(كتاب الكراهية، الْبَابُ الثَّامِنَ عَشَرَ فِي التَّدَاوِي وَالْمُعَالَجَاتِ وَفِيهِ الْعَزْلُ وَإِسْقَاطُ الْوَلَدِ، ٥ / ٣٥٦، ط: دار الفكر)

الموسوعة الفقهية الكوتية میں ہے:

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل."

(الموسوعة الفقهیة الکویتیة۳۰/ ۲۸۵)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں