بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی کے لیے بارات لے کر جانا اور لڑکی والوں کا کھانے کا انتظام کرنا


سوال

شادی ہال میں بارات کے ساتھ جانا کیسا ہے؟ اور عورت والوں کی طرف سے کھانے کے انتظام کے بارے میں شرعی ہدایات کیا ہیں؟

جواب

نکاح اور رخصتی کا بہترطریقہ یہ ہے کہ مسجد میں نکاح کیا جائے، پھر نکاح کے بعد   لڑکی کو اس کے محارم کے ذریعے دولہا کے گھر پہنچا دیا جائے، اور اگر خود دولہا  اور اس کے گھر والے جاکر دلہن کو لے آئیں تو یہ بھی جائز ہے، اسی طرح   اگر خلافِ شرع امور سے بچتے ہوئے لڑکے کے خاندان کے چند افراد اجتماعی صورت میں لڑکی  کی رخصتی کرواکر لے آئیں، اس کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ شرعی شرائط یعنی پردہ کا اہتمام ہو، اختلاط، موسیقی  وغیرہ اور تمام رسومات سے بچاجائے۔

بوقتِ رخصتی سادگی اختیار کرنا بہتر ہے، اور خرافات اور ناجائز کاموں سے اجتناب لازم ہے۔ غرض اسلامی مزاج یہ ہے کہ جتنی سادگی اور بے تکلفی سے آدمی اس ذمہ داری سے سبک دوش ہو یہ زیادہ بہتر اور قابلِ ستائش ہے۔ اس میں میزبانوں کے لیے بھی آسانی ہے اور مہمانوں کی بھی راحت ہے۔

رخصتی کے لیے باقاعدہ بارات کا لے جانا نبی کریم ﷺاور اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔اور موجودہ زمانہ میں تو  رخصتی کے لیے بہت سارے امور کو لازم سمجھاجاتاہے، مثلاً لڑکی کی رخصتی کے لیے باقاعدہ بارات کا اہتمام کرنا، کئی لوگوں کو لے جانا اور لڑکی والوں سے کھانے کا انتظام وغیرہ کروانا وغیرہ، اور اس میں اور بھی بہت سے مفسدات پائے جاتے ہیں، اس لیے مروجہ طریقہ پرخرافات مثلاً موسیقی، مرد وزن اختلاط، اور کئی رسومات کی ادائیگی کے ساتھ بارات کے اہتمام سے اجتناب لازم ہے۔

نیز نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام  کا ثبوت   کسی صحیح حدیث سے تو نہیں؛ اس لیے اس طرح کی دعوت کرنا  ولیمہ کی طرح سنت نہیں  ہے، ہاں اگر کوئی نمود ونمائش سے بچتے ہوئے،  کسی قسم کے مطالبہ اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی ورضا  سے اپنے اعزہ اور مہمانوں کوکھانا کھلائے تو  یہ مہمانوں کا اکرام ہے، اور اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا بارات والوں کے لیے جائز ہے، اور اگر  لڑکی والے  اس کو لازم سمجھیں اور  اس  کے اہتمام کے لیے قرضے لیے جاتے ہوں تو ایسی دعوت کرنا جائز نہیں  ہوگا۔

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :

لڑکی والوں کی طرف سے براتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر  بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں ۔

(کفایت المفتی، 7/471، باب العرس والولیمہ، ط: فاروقیہ)

فتاوی  محمودیہ میں ہے: 

جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر  کھائیں گے! اور اپنے مہمان کو کھلانا  تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے۔

(12/142، باب العروس والولیمہ، ط:فاروقیہ)

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاوی ملاحظہ فرمائیں:

رخصتی کا سنت طریقہ

رخصتی کیسے کی جائے؟

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں