بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی صاحبِ نصاب شخص پر ہے اس کے متعلق حدیث


سوال

 مجھے  قربانی سے متعلق احادیث کی ضرورت ہے،  دو یا تین عدد احادیث جن میں قربانی کے صاحبِ  نصاب شخص پر واجب ہونے کو بیان فرمایا ہو،  وہ بھیج دیں!

جواب

قربانی صاحبِ  نصاب شخص پرواجب ہوتی ہے اور اس  بات کا ثبوت مندرجہ ذیل حدیث سے  ملتا ہے:

"عن زيد بن الحباب عن عبد الله بن عياش عن عبد الرحمن بن الأعرج عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من كان له سعة، ولم يضحّ، فلايقربنّ مصلانا."

ترجمہ:جس شخص کے پاس مال کی وسعت ہو اور پھر قربانی نہ کرے  تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب مت آئے۔

یہ  حدیث احمد بن حنبل،اسحاق ابن راہویہ ،ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی موصلی رحمہم اللہ نے اپنی اپنی مسانید میں ،دار قطنی اور ابن ماجہ  رحمہما اللہ  نے سنن میں اور حاکم رحمہ اللہ  نے مستدرک میں  ذکر کی ہے۔حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ سوائے عبد اللہ بن عیاش کے اس حدیث کے تمام راوی بخاری اور مسلم کے راوی ہیں اور عبد اللہ بن عیاش صرف مسلم کے راوی ہیں۔

فقہاء اس صحیح حدیث میں مال کی وسعت سے نصاب کے بقدر مال مراد لیتے ہیں؛ کیوں کہ شریعت میں مال دار اسے تصور کیا جاتا ہے جو نصاب کا مالک ہو، اور جو نصاب کا مالک نہ ہو، شریعت کی اصطلاح میں اسے فقیر یا مسکین قرار  دے کر زکات کا مستحق قرار دیا گیا ہے؛  لہذا حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ جس شخص کے پاس نصاب کے بقدر  مال ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو حضور  ﷺ نے اس شخص پر ناراضی کا اظہار کیا اور اس شخص کو عید گاہ کے قریب آنے سے بھی منع کیا،حضور ﷺ کی اس ناراضی اور حکم سے یہ معلوم ہوا کہ صاحبِ  نصاب شخص پر قربانی واجب ہے؛ اسی لیے اس کے نہ کرنے والے پر ناراضی کا اظہار کیا اور ناراضی کا اظہار واجب اور فرائض  کے ترک پر ہی ہوتا ہے۔اس وعید اور غصہ کو حضور ﷺ نے چوں کہ مال کی وسعت (نصاب کے بقدر مال) کے ساتھ جوڑا ہے تو جس شخص کے پاس اتنا مال نہیں اس پر یہ وعید بھی نہیں؛  لہذا اس پر قربانی واجب بھی نہیں۔پس خلاصہ یہ ہوا کہ اس صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ صاحبِ نصاب شخص پر ہی قربانی واجب ہوگی۔

نصب الراية  میں ہے:

"الحديث الثاني:

قال عليه السلام: "من وجد سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا"، قلت: أخرجه ابن ماجه في سننه1 عن زيد بن الحباب عن عبد الله بن عياش عن عبد الرحمن بن الأعرج عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا"، انتهى. ورواه أحمد، وابن أبي شيبة، وإسحاق بن راهويه، وأبو يعلى الموصلي في مسانيدهم، والدارقطني في سننه، والحاكم في المستدرك2 في تفسير سورة الحج، وقال: صحيح الإسناد، ولم يخرجاه، وأخرجه في الضحايا عن عبد الله بن يزيد المقري ثنا عبد الله بن عياش به مرفوعا، وقال: صحيح الإسناد، ولم يخرجاه، ثم رواه من حديث ابن وهب أخبرني عبد الله بن عياش، فذكره موقوفا، قال: هكذا وقفه ابن وهب، والزيادة من الثقة مقبولة، وعبد الله بن يزيد المقرئ فوق الثقة، انتهى. قال في التنقيح: حديث ابن ماجه رجاله كلهم رجال الصحيحين إلا عبد الله بن عياش القتبائي، فإنه من أفراد مسلم، قال: وكذلك رواه حيوة بن شريح، وغيره عن عبد الله بن عياش به مرفوعا، ورواه ابن وهب عن عبد الله بن عباس به موقوفا، وكذلك رواه جعفر بن ربيعة، وعبيد الله بن أبي جعفر عن الأعرج عن أبي هريرة موقوفا، وهو أشبه بالصواب، انتهى. وذهل شيخنا علاء الين مقلدا لغيره، فعزا هذا الحديث للدارقطني فقط، قال ابن الجوزي في التحقيق: وهذا الحديث لا يدل على الوجوب، كما في حديث: من أكل الثوم، فلا يقربن مصلانا."

(کتاب الاضحیۃ ج نمبر ۴ ص نمبر  ۲۰۷،موسسۃ الريان)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

ومنها الغنى لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم  أنه قال: «من وجد سعة فليضح» شرط عليه الصلاة والسلام السعة وهي الغنى ولأنا أوجبناها بمطلق المال ومن الجائز أن يستغرق الواجب جميع ماله فيؤدي إلى الحرج فلا بد من اعتبار الغنى وهو أن يكون في ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه وما يتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه وما لا يستغني عنه وهو نصاب صدقة الفطر."

(کتاب الاضحیۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۶۴ ،دار الکتب العلمیۃ)

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

قربانی کے نصاب کا ثبوت

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں