بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کرنے کا کسی کو وکیل بنانا / قربانی کا سارا گوشت مستحقین میں تقسیم کرنا


سوال

کیاقربانی وقف کرنا اس طرح کہ کسی دینی جماعت کوپیسے دے دینا کہ میری جگہ میری واجب قربانی کرکے مستحقین میں تقسیم کردیں کیا جائز ہے ؟بحوالہ کتبِ  فقہ جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں!

جواب

قربانی  کے  لیے وکیل بنانا شرعًا جائز ہے، اسی  طرح قربانی کا سارا کا سارا  گوشت نہ خود رکھنا ضروری ہے، اور نہ ہی سب کا سب غرباء میں تقسیم کرنا  شرعًا ضروری ہے، قربانی کے گوشت کی تقسیم قربانی کرنے والے کی صواب دید  پر  ہے، چاہے تو سب تقسیم کردے، چاہے تو سب رکھ لے ،یا بعض حصہ رکھ کر بعض حصے کو تقسیم کردے، سب صورتیں  جائز ہیں،  لہذا صورتِ  مسئولہ میں اپنی قربانی کرنے کی ذمہ داری کسی معتمد  ادارے کے سپرد کرسکتے ہیں، اسی طرح سے تمام گوشت غرباء و مستحقین میں تقسیم بھی کر سکتے ہیں۔

دیکھیے:

صدقہ اور قربانی کے گوشت کی تقسیم کا طریقہ

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"(ومنها) أنه تجزئ فيها النيابة فيجوز للإنسان أن يضحي بنفسه و بغيره بإذنه؛ لأنها قربة تتعلق بالمال فتجزئ فيها النيابة كأداء الزكاة وصدقة الفطر؛ ولأن كل أحد لايقدر على مباشرة الذبح بنفسه خصوصًا النساء، فلو لم تجز الاستنابة لأدى إلى الحرج."

( كتاب التضحية، فصل في انواع كيفية الوجوب، ٥ / ٦٧، ط: دار الكتب العلمية)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

(ويأكل من لحم الأضحية ويأكل غنيا ويدخر، وندب أن لاينقص التصدق عن الثلث). و ندب تركه لذي عيال توسعة عليهم

(قَوْلُهُ: وَ يَأْكُلُ غَنِيًّا وَيَدَّخِرُ) لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ  بَعْدَ النَّهْيِ عَنْ الِادِّخَارِ: «كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا» الْحَدِيثُ رَوَاهُ الشَّيْخَانِ وَأَحْمَدُ.

(قَوْلُهُ: وَنُدِبَ إلَخْ) قَالَ فِي الْبَدَائِعِ: وَالْأَفْضَلُ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِالثُّلُثِ وَيَتَّخِذَ الثُّلُثَ ضِيَافَةً لِأَقْرِبَائِهِ وَأَصْدِقَائِهِ وَيَدَّخِرَ الثُّلُثَ؛ وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا، وَلَوْ حَبَسَ الْكُلَّ لِنَفْسِهِ جَازَ لِأَنَّ الْقُرْبَةَ فِي الْإِرَاقَةِ وَالتَّصَدُّقِ بِاللَّحْمِ تَطَوُّعٌ (قَوْلُهُ: وَنُدِبَ تَرْكُهُ) أَيْ تَرْكُ التَّصَدُّقِ الْمَفْهُومِ مِنْ السِّيَاقِ (قَوْلُهُ: لِذِي عِيَالٍ) غَيْرِ مُوَسَّعِ الْحَالِ بَدَائِعُ."

( كتاب الأضحية، ٦ / ۳۲۸، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200293

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں