بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ اور قربانی کے گوشت کی تقسیم کا طریقہ


سوال

صدقے کے گوشت کی تقسیم کرنے کا جو طریقہ کار ہے وہ قربانی کے گوشت سے ہے؟

جواب

آپ کا سوال واضح نہیں ہے، اگر آپ کے سوال کا مقصد یہ ہے کہ صدقہ کے گوشت کی تقسیم کا طریقہ قربانی کے گوشت کی تقسیم کی طرح ہے؟ تو واضح رہے کہ دونوں کی تقسیم میں فرق ہے۔

قربانی کی تقسیم میں مال دار اور  صاحبِ  وسعت شخص کے لیے بہتر یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرکے؛ ایک حصہ صدقہ میں دے، ایک حصہ رشتہ داروں اور دوست احباب میں بانٹ  دے یا دعوت میں کھلا دے اور  ایک حصہ اپنے  کھانے کے لیے محفوظ رکھے۔ اور اگر کوئی سارا گوشت صدقہ کردے یا سارا اپنے پاس رکھ لے تو یہ بھی جائز ہے۔  لہٰذا اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی شخص غریبوں میں گوشت تقسیم نہ کرے تو شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔

یہ حکم فقہاء کرام نے اپنی کتب فقہ میں ذکر فرمایا ہے اور اس کی اصل مندرجہ ذیل آیات اور احادیث  کو قرار دیا۔

  • فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر
  • فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير
  • كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فكلوا منها وادخروا

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 81):

"والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه ويدخر الثلث لقوله تعالى {فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر} [الحج: 36] وقوله - عز شأنه - {فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير}[الحج: 28]وقول النبي عليه الصلاة والسلام: «كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فكلوا منها وادخروا» فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا."

اور ’’صدقہ‘‘ سے  مراد اگر واجب صدقہ (مثلًا زکاۃ، صدقہ فطر، کفارہ، فدیہ، دم) ہے  تو جو لوگ مستحقِ زکات ہوں، (یعنی ان کے پاس ضرورت و استعمال سے زائدکسی بھی قسم کا اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو، اور وہ ہاشمی (سید/عباسی) نہ ہوں) ان کے لیے صدقہ (واجبہ) کا گوشت کھانا جائز ہے، اور  جو لوگ مستحق زکات نہ ہوں ان کو صدقہ واجب کا گوشت کھلانا جائز نہیں ہے، اسی طرح  اس کو صدقہ دینے والے شخص کے اصول  (والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ)، فروع (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی، وغیرہ) اور  شوہر یا بیوی بھی نہیں کھا سکتے  ہیں۔

اور ’’ نفلی صدقہ‘‘ (عام صدقہ) ہو تو اس کا گوشت ہر شخص کھا سکتا ہے، خواہ وہ مال دار ہو یا صدقہ دینے والے کا قریبی رشتہ دار ہو۔  البتہ جو شخص کسی وجہ سے نفلی صدقہ نکال رہا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے زیرِ کفالت افراد کو اس صدقہ کی چیز نہ کھلائے نہ خود کھائے، بلکہ ایسی صورت میں زیادہ بہتر یہ ہے کہ کسی مستحق کو دے؛ تاکہ ثواب بھی زیادہ ہو، تاہم اگر اپنے زیرِ کفالت افراد کو بھی کھلادے تو کوئی حرج نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200976

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں