بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرآن سے نکاح کی شرعی حیثیت اور اثرات اور ونی کی شرعی حیثیت اور اثرات


سوال

قرآن سے شادی کی شرعی حیثیت اور اثرات ؟  ونی کی شرعی حیثیت اور اثرات؟

جواب

واضح رہے کہ جھگڑے کے دوران صلح میں اپنی بیٹی دینا کسی حال میں بھی جائز نہیں ہےالبتہ  نکاح کر کے بیٹی دینا یہ صحیح ہے یا نہیں اس میں تفصیل ہے کہ  اگر صلح کے عوض میں لڑکی دینے میں باپ کا سوء الاختیار ثابت ہوجائے تو نکاح سرے سے منعقدہی  نہیں ہوتا بلکہ باطل ہوتاہے ،سیءالاختیار ہونے سے مراد یہ ہےکہ باپ نے طمع زر یا حماقت کی وجہ سے اپنے مفاد کو لڑکی کے مفاد پر ترجیح دی ہواورنکاح میں یقینی طور پر آئندہ زندگی میں لڑکی کے مفاد کو پیش نظرنہ رکھاگیا ہو،تو ایسی صلح کے عوض  لڑکی دینا جائز نہیں ہے،کیونکہ بعض دفعہ اس میں لڑکی کے ساتھ بہت ناانصافی ہوتی ہے ، لڑکا لڑکی  میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے آپس کی زندگی تلخ ہوجاتی ہے اورگذارا مشکل ہوجاتا ہے ،اس کے علاوہ بھی مفاسد ہوتے ہیں ، اس لئے اس رواج کو ختم کردینا ضروری ہے۔

باقی زیر نظر استفتاء میں  قرآن سے شادی کے متعلق سوال غیر واضح ہے،  اس رسم کی پوری وضاحت لکھ کر دوبارہ سوال کر سکتے ہیں۔

ـ"ونی"  سے  متعلق جامعہ کے دار الافتاء سے جاری شدہ فتویٰ درج ذیل لنک پر ملاحظہ کیجیے:

سوارہ اور ونی کی رسم کا حکم

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى المصالح عليه.

فأنواع: (منها) أن يكون مالا فلا يصح الصلح على الخمر والميتة والدم وصيد الإحرام والحرم وكل ما ليس بمال؛ لأن في الصلح معنى المعاوضة فما لا يصلح عوضا في البياعات لا يصلح بدل الصلح، وكذا إذا صالح على عبد، فإذا هو حر؛ لا يصح الصلح؛ لأنه تبين أن الصلح لم يصادف محله."

(کتاب الصلح ، فصل فی الشرائط التی ترجع الی المصالح علیه جلد ۶ ص : ۴۲ ط : دارالکتب العلمیة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والخلاف فيما إذا لم يعرف سوء اختيار الأب مجانة أو فسقا أما إذا عرف ذلك منه فالنكاح باطل إجماعا."

(کتاب النکاح، الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح جلد ۱ ص : ۲۹۴ ط : دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله مجانة وفسقا).....وفي شرح المجمع حتى لو عرف من الأب سوءالاختيار لسفهه أو لطمعه لا يجوز عقده إجماعا."

(کتاب النکاح ، باب الولی جلد ۳ ص : ۶۶ ط : دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وبه ظهر أن الفاسق المتهتك وهو بمعنى سيئ الاختيار لا تسقط ولايته مطلقا لأنه لو زوج من كفء بمهر المثل صح."

(کتاب النکاح ، باب الولی جلد ۳ ص : ۵۴ ط : دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308100453

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں