بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سوارہ اور ونی کی رسم کا حکم


سوال

میرے بڑے بھائی کے نکاح میں میرے چھوٹے تایا کی بیٹی تھی،2010 میں بھائی نے دوسری شادی کرلی جس کی وجہ سے گھریلو ناچاقیاں بڑھ گئیں ، کسی وجہ سے تکرار ہونے پر تایا کی بیٹی نے خود کشی کرلی ۔تایا اور تایا زاد بھائیوں نے ہم پر قتل کا دعوی کردیا ، اس کے بعد گاؤں میں جرگے کا انعقاد ہوا، میرے والد صاحب نے جرگے سے کہا کہ اگر سوارہ یا ونی(بدلے میں لڑکی دینا) پر صلح ہونی ہے تو میں اس پر راضی نہیں ہوں اور نا جرگے میں بیٹھنے کے لئے تیار ہوں، البتہ زمین یا رقم کے بدلے میں صلح ہوتی ہے تو ٹھیک ہے ، جرگے والوں نے میرے والد صاحب کو یہ باور کرایا کہ ہم پیسوں کے بدلے میں یا زمین کے بدلے میں صلح کریں گے آپ صرف جرگے میں بیٹھ جائیں ،جب جرگہ شروع ہوا تو معاملہ بالکل الٹ تھا ہمارے علاقے کے معززین نے کچھ تمہیدات باندھیں اور اس کے بعد علاقے کے ایک مولوی صاحب کو نکاح کرانے کا کہا میرے والد نے انکار کیا تو ایجاب قبول میرے بڑے تایا مرحوم سے کروایا گیا حالانکہ میرے والد رضامند نہیں تھے،جرگے کے بعد میرے والد احتجاجاً وہاں سے چلے گئے،میری بہن کی عمر اس وقت تین سال تھی ، جب وہ کچھ سمجھ بوجھ کے قابل ہوئی تو اس نے انکار کرنا شروع کردیا اور آج تک انکار کررہی ہے ۔

1)اب پوچھنا یہ ہے کہ میرے والد کی موجودگی میں میرے بڑے تایا مرحوم کا ایجاب قبول کرنا صحیح تھا جبکہ میرے والد رضامند نہیں تھے ،یہ نکاح منعقد ہوا یا نہیں؟

2)نیز سوارہ یا ونی کا عمل شرعا جائز ہے یا ناجائز؟جبکہ وفاقی شرعی عدالت اس کے غیر اسلامی اور غیر شرعی ہونے کا فیصلہ دے چکی ہے۔

جواب

1۔صورت مسئولہ میں بچی کے والد کی موجودگی میں، بچی کے والد کے انکار کے باوجود  بچی  کے تایا کا نکاح کرانا شرعاً جائز نہیں تھا ،ایسا نکاح شرعا منعقد ہی نہیں ہوا۔

2۔کسی بچی کو صلح کے طور دوسرے فریق کو دینا اور اس سے نکاح کراناسوارہ یا ونی کی رسم کہلاتا ہے،یہ رسم  شرعا جائز نہیں ہے،کیونکہ آزاد عورت شرعا مال نہیں ہے اور بدل صلح کا مال ہونا ضروری ہے،نیز اس رسم میں عموماً عاقلہ، بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کردیا جاتا ہے جب کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے،اسی طرح اس طریقہ سے نکاح کرنے میں عموماً لڑکی اپنے حق مہر سے محروم رہتی ہے جب کہ حق مہر عورت کا واجبی حق ہے ۔لہذا ان تمام شرعی مفاسد کا حاصل یہ ہے کہ  صلح  کے طور پر لڑکی دینے کی رسم کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے،یہ ایک جاہلانہ  اور ظالمانہ  رسم ہے اور بالکل حرام اور ناجائز ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن زوج الصغير أو الصغيرة أبعد الأولياء فإن كان الأقرب حاضرا وهو من أهل الولاية توقف نكاح الأبعد على إجازته، وإن لم يكن من أهل الولاية بأن كان صغيرا أو كان كبيرا مجنونا جاز، وإن كان الأقرب غائبا غيبة منقطعة؛ جاز نكاح الأبعد، كذا في المحيط."

(کتاب النکاح،الباب الرابع في الأولياء،ج1،ص285،ط؛دار الفکر)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى المصالح عليه.

فأنواع: (منها) أن يكون مالا فلا يصح الصلح على الخمر والميتة والدم وصيد الإحرام والحرم وكل ما ليس بمال؛ لأن في الصلح معنى المعاوضة فما لا يصلح عوضا في البياعات لا يصلح بدل الصلح."

(کتاب الصلح،فصل في الشرائط التي ترجع إلى المصالح عليه،ج6،ص42،ط؛دار الکتب العلمیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100218

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں