میں ایک کمپنی کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی ویڈیو بناتا ہوں، جس میں آیات، تلاوت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بیک گراؤنڈ میں قدرتی مناظر ہوتے ہیں، مجھے پتا ہے وہ یہ ویڈیوز اپنے قرآن مجید کے یوٹیوب چینل پر ڈالتے ہیں، کیا میرے لیے یہ ویڈیو بنانا اور اس کی اجرت جائز ہے؟
یوٹیوب کا تو آپ حضرات کو معلوم ہے کہ کسی بھی وقت اشتہار چل جاتا ہے، پتہ نہیں وہ انہوں نے ڈس ایبل کیا ہے یا نہیں؟ لیکن میرے لیے ویڈیو بنا کر دینا جیسا کہ عرض کیا جائز ہے یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں دو الگ معاملے ہیں:
(1)ذکر کردہ طریقے کے مطابق ویڈیو بنانا، یعنی غیر جاندار اشیاء پر مشتمل ویڈیو قرآنی تلاوت کے ساتھ بنانا، اس کا حکم یہ ہے کہ یہ جائز ہے،اور پھر اس ویڈیو کو کسی دوسرے فرد کو فروخت کرنا بھی جائز ہے۔
(2) سائل جس کمپنی کو یہ ویڈیو دیتا ہے، اس کے ذمہ داران کا اس ویڈیو کو یوٹیوب چینل پر اَپ لوڈ کرنا اور اس سے کمانا، اس کا حکم یہ ہے کہ یوٹیوب پر چینل بناکر اس پر چلنے والے اشتہارات کے ذریعے آمدن حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن سائل کا اس معاملے سے تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ تمام مفاسد چوں کہ کمپنی والوں کا عمل ہے؛ لہذا اس کا گناہ بھی مذکورہ کمپنی پر ہی ہوگا۔
مزید دیکھیے:
فتاوی شامی میں ہے:
"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا".
(كتاب الصلوة، باب مايفسد الصلوة ومايكره، ج:1، ص:647، ط:ايج ايم سعيد)
البناية شرح الهداية میں ہے:
"قال: ولا بأس ببيع العصير ممن يعلم أنه يتخذه خمرا؛ لأن المعصية لا تقام بعينه، بل بعد تغييره بخلاف بيع السلاح في أيام الفتنة؛ لأن المعصية تقوم بعينه.
م: (قال: ولا بأس ببيع العصير ممن يعلم أنه يتخذه خمرا) ش: أي قال القدوري - رَحِمَهُ اللَّهُ - م: (لأن المعصية لا تقام بعينه) ش: أي بعين العصير م: (بل بعد تغييره) ش: واستحالته إلى الخمر م: (بخلاف بيع السلاح في أيام الفتنة؛ لأن المعصية تقوم بعينه) ش: أي بعين السلاح.
وفي " فتاوى الولوالجي ": رجل له عبد أمرد أراد أن يبيعه من فاسق يعلم أنه يعصي الله فيه، يكره هذا البيع لأنه إعانة على المعصية".
(كتاب الكراهية، فصل فی البیع، [ببيع العصير ممن يعلم أنه يتخذه خمرا، ج:12، ص:220، ط:دارالکتب العلمیۃ)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144311100705
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن