بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نمازوں کا کفارہ


سوال

فوت شدہ نماز کا کفارہ کیا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ جس شخص نے  زمانہ ماضی میں غفلت کی بنا پر بہت سی نمازیں قضا کی ہوں تو اس کو چاہیے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے اس جرمِ عظیم پر توبہ و استغفار کرے اور آئندہ کے لیے پکا عزم کرے کہ اب کوئی بھی نماز جان بوجھ کر قضا نہیں کرے گا، توبہ کرنے کے بعد گزشتہ فوت شدہ نمازوں کی قضا پڑھنا بھی لازم ہے، صرف توبہ کرلینے سے فوت شدہ نمازیں ذمہ سے معاف نہیں ہوں گی۔

نیز قضا نمازوں کافدیہ زندگی میں ادا کرنا صحیح نہیں ہے،  بلکہ زندگی میں قضا نمازوں کو ادا کرنا ہی لازم ہے، یعنی  فوت شدہ نمازوں کا فدیہ اور کفارہ یہی ہے کہ ان نمازوں  کو ادا کیا جائے، اور ادا کرنے کے بعد تاخیر کی وجہ سے جو گناہ ہوا ہے اس سے توبہ کرنا بھی ضروری ہے، زندگی میں قضا نمازوں کے بدلےمیں صدقہ دینے سے کچھ نہیں ہوگا، اس لیے ان نمازوں کو ہر حال میں ادا کرنا لازم ہے ۔

قضا نمازوں کو ادا کرنے  کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد  آپ کی جتنی نمازیں قضا ہوگئی ہیں  اُن کاحساب کریں، اگر قضا نمازوں کی تعداد معلوم ومتعین ہو تو ترتیب سے ان نمازوں کو قضا کرنا چاہیے، اور اگر متعین طور پر قضاشدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو اور  یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو  تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازہ اور تخمینہ لگالیں اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں احتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں  پڑھنا شروع کردیں، جو فرض نماز فوت ہوئی ہو اس کو قضا کرتے وقت اتنی ہی رکعتیں قضا کرنی ہوں گی جتنی فرض یا واجب رکعتیں اس نماز میں ہیں، مثلاً فجر کی قضا دو رکعت ، ظہر اور عصر کی چار، چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی، عشاء کی نماز قضا کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا کرنی ہوگی، قضا صرف فرض نمازوں اور وتر کی ہوتی ہے۔ 

قضا  نماز  متعینہ طور پر معلوم ہو تو اس کی نیت  میں ضروری ہے کہ اسے پڑھتے وقت اس کی مکمل تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً  پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر  کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر  کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے، مثلاً: یوں کہہ دیں: جتنی فجر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے آخری فجر کی نماز ادا کررہاہوں۔

ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔

نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی  یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں)،  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ  ہوجائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 76):

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.

(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت". فقط والله أعلم

مزیدتفصیل کے لیے  درج ذیل لنک پر  جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

فوت شدگان کی نمازوں کا کفارہ


فتوی نمبر : 144210201325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں