بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فوت شدگان کی نمازوں کا کفارہ


سوال

 کچھ سکالر سے یہ سنا ہے کہ فوت شدگان کی نمازوں کا کفارہ دیا جا سکتا ہے جو کہ کچھ مال کی صورت میں ہے ۔ یہ بات عقل تو نہیں مانتی، لیکن آپ حضرات سے گزارش ہے کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں؛ تاکہ جو لوگ اس پر عمل پیرا ہیں ان کی اصلاح بھی ہوسکے اور ہمارے علم میں اضافہ بھی!

جواب

قضا نمازوں کافدیہ زندگی میں ادا کرنا صحیح نہیں ہے،  بلکہ زندگی میں قضا نمازوں کو ادا کرنا ہی لازم ہے، یعنی  فوت شدہ نمازوں کا فدیہ اور کفارہ یہی ہے کہ ان نمازوں  کو ادا کیا جائے، اور ادا کرنے کے بعد تاخیر کی وجہ سے جو گناہ ہوا ہے اس سے توبہ کرنا بھی ضروری ہے، زندگی میں قضا نمازوں کے بدلےمیں صدقہ دینے سے کچھ نہیں ہوگا، اس لیے ان نمازوں کو ہر حال میں ادا کرنا لازم ہے ۔

لیکن اگر کوئی شخص ایسی حالت میں مرگیا اور اس کے ذمہ قضا نمازیں رہ گئیں اور وہ  زندگی میں ان کو ادا نہ کرسکا، تو اب موت کے بعد اس کا فدیہ دینا جائز ہوگا، فقہاء نے اس کو روزوں پر قیاس کیا ہے کہ اگر کوئی شخص بیماری سے عاجز ہوکر روزہ نہ رکھ سکتا ہو اور مرنے سے پہلے اس کو صحت یابی کی امید بھی نہ ہو  تو شریعت نے اس کو  ایسی حالت میں زندگی میں ورنہ مرنے کے بعد فدیہ دینے کی اجازت دی ہے اور زندگی میں روزوں کا فدیہ ادا کرنے کے بعد   اگر مرنے سے پہلے روزہ رکھنے کی طاقت حاصل ہوجائے  اور وقت بھی ملے تو ان روزوں کی قضا کرنا ضروری ہوگا اور فدیہ ادا کرنا باطل ہوجائے گا،   تو جس شخص کی بیماری یا کسی عذر کی وجہ سے نمازیں رہ گئی ہوں اور وہ مرتے دم تک اس کو ادا نہ کرسکا تو  اب وہ مرنے سے پہلے وصیت کرجائے ، مرنے کے بعد اس کی وصیت کے مطابق ایک تہائی ترکہ میں سے اس کی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا ضروری ہوگا،  اگر اس نے وصیت نہ کی ہو اور تمام عاقل بالغ ورثاء اپنی خوشی مرحوم کی طرف سے فدیہ ادا کردیں تو یہ بھی جائز ہے، اور دونوں صورتوں میں روزے  پرقیاس کرکے فقہاء یہ فرماتے ہیں  اللہ کی ذات سے امید ہےیہ   نمازوں کا  فدیہ  ان شاء اللہ  قبول فرمالیں گے۔

مذکورہ تفصیل سے یہ واضح ہوگیا کہ نمازیں اس  لیے چھوڑدینا کہ اس کا فدیہ ادا کردوں گا قطعاً جائز نہیں ہے، بلکہ نماز چھوڑنا کبیرہ گناہ ہے، اور نماز فوت ہونے کی صورت میں ہر حال میں اس کو قضا بھی کرنا ہے اور توبہ بھی کرنی ہے، اور اگر کوشش کے باوجود قضا نہ کرسکا تو  اس صورت میں فدیہ دیا جاتا ہے۔

نیز ایک نماز اور ایک روزہ کا فدیہ صدقہ فطر کی مقدار کے برابر ہے۔ فدیہ ادا کرنے کی صورت میں یومیہ چھ نمازوں (پنج وقتہ فرض نماز اور وتر) کے حساب سے فدیہ ادا کرنا ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72):
"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة.
(قوله: وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها، وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله عليه الصلاة والسلام: «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه». وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.
(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك؛ لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك، إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعاً؛ لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة؛ لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطاً؛ لاحتمال كون النص فيه معلولاً بالعجز، فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولاً تكون الفدية براً مبتدأً يصلح ماحياً للسيئات، فكان فيها شبهة، كما إذا لم يوص بفدية الصوم، فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى".
فقط واللہ اعلم
 


فتوی نمبر : 144001200803

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں