بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قومی ترانہ میں موجود جملہ پاک سرزمین شاد باد کیا قرآن و حدیث کے منافی ہے؟ / باسط حسین نام رکھنا


سوال

پاکستان کے نام اور ترانے میں لفظ" پاک سرزمین" آتا ہے اور پاکستان کا مطلب پاک لوگوں کی سر زمین اور مولانا آزاد نے بھی کہا تھا کہ پاکستان کے ترانے اور نام کی اصطلاح سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ دنیا کے کچھ حصے پاک ہیں اور کچھ ناپاک ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ کوئی زمین  کیسے پاک ہو سکتی ہے؟  اور پاکستان کے نام میں اور پاک سرزمین کہنے  میں کوئی مسئلہ ہے کیا؟ 

میرا دل اس میں اس قدر بھر چکا ہے کہ میں نے یہ سوچ لیا ہے کہ جس کتاب میں ترانہ لکھا ہوگا میں اسے نہیں پڑھو گا کیونکہ ترانہ قرآن وحديث کے خلاف ہے۔

 آپ مجھے یہ بتا دیں کہ کیا پاکستان کا نام اور ترانہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے؟

دوسرا میرا سوال ہے کہ میرا نام باسط حسين ہے اس کا مطلب مجھے بتا دیں؟ اور میں نے کئی لوگوں سے کہا کہ مجھے عبد الباسط بولیں لیکن وہ نہیں کہتے۔

جواب

1۔ واضح  رہے کہ پاک کا لفظ استعمال کے لحاظ سے   متعدد معانی میں مستعمل ہے،   جیسے آزاد،  پارسا، پاکیزہ، حلال،خالص، دیانتدار، طاہر، نیک، وغیرہ  ( ایڈوانس اردو لغت)پس ان متعدد معانی میں سے کسی ایک معانی کا   تعین سیاق و سباق   ( یعنی کس تناظر میں لفظ پاک مستعمل  ہے) سے کیا جاتا ہے،  مثلًا:  اگر   نجس و پلید کے مقابل میں لفظ پاک مستعمل ہو تو اس کے معنی طاہرو پاکیزہ  کے لیے جاتے ہیں، اسی طرح سے اگر حرام کے مقابل میں پاک بولا جائے تو اس کے معنی حلال کے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہند کے مقابل میں پاک مستعمل ہو  تو اس کے معنی آزاد کے ہوتے ہیں، پس پاکستان کا مطلب ہوگا ہند کے تسلط سے آزاد ریاست ۔

صورتِ  مسئولہ  میں  قومی  ترانہ  میں موجود کلمات    "پاک  سرزمین  شاد  باد"  دعائیہ  جملہ  ہے،  جس  کے  معنی   ہیں: " اے  اللہ!  ہند  کے  تسلط  سے  پاک  ریاست، یعنی پاکستان کو سر سبز و آباد  رکھ"۔   پس  پاکستان کے نام اور قومی ترانہ میں موجود مذکورہ جملہ کو قرآن و حدیث کے منافی سمجھنادرست نہیں۔

2۔  باسط کے معنی پھیلانے،  فراخی  عطا کرنے، کے آتے ہیں؛  باسط اللہ رب العزت کے صفاتی ناموں میں سے تاہم یہ صفت باری  تعالٰی کے ساتھ خاص نہیں ، یعنی اس کا اطلاق باری تعالٰی کے علاوہ مخلوق پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ سورہ کہف  آیت 18 میں اللہ رب عزت نے باسط کا لفظ غير اللہ کے لیے استعمال  فرمایا ہے؛ ارشاد باری تعالیٰ  ہے: " وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ"  لہذا  باسط حسین  نام رکھنا جائز ہے،  باسط سے پہلے عبد کا اضافہ شرعًا ضروری نہیں۔

مزید دیکھیے:

باسط حسین نام کا حکم

باسط حسین نام رکھنا نا پسندیدہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟

تفسیرالطبری میں ہے:

" وكان لله جل ذكره أسماء قد حرم على خلقه أن يتسموا بها، خص بها نفسه دونهم، وذلك مثل "الله" و "الرحمن" و "الخالق"؛ وأسماء أباح لهم أن يسمي بعضهم بعضاً بها، وذلك: كالرحيم والسميع والبصير والكريم، وما أشبه ذلك من الأسماء ، كان الواجب أن تقدم أسماؤه التي هي له خاصة دون جميع خلقه، ليعرف السامع ذلك من توجه إليه الحمد والتمجيد، ثم يتبع ذلك بأسمائه التي قد تسمى بها غيره، بعد علم المخاطب أو السامع من توجه إليه ما يتلو ذلك من المعاني."

(تفسير الطبري ،جامع البيان، سورة الفاتحة، ۱ / ۱۳۳، ط: مؤسسة الرسالة)

رد المحتار علی الدر المختارمیں ہے:

" (أحب الأسماء إلى الله تعالى عبد الله وعبد الرحمن) وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى لكن التسمية بغير ذلك في زماننا أولى لأن العوام يصغرونها عند النداء كذا في السراجية وفيها

(قوله: و جاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفا بأل."

( كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، فرع: يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس، ٦ / ٤١٧، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں