بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

قبرکشائی کے بعد دوبارہ دفن کرنے سے پہلے غسل کفن اور نماز کا حکم


سوال

ایک شخص کا سڑک حادثہ میں انتقال ہوگیا، اس کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا،  اس کے اہل خانہ نے تجہیز و تکفین نماز جنازہ اور تدفین کی ذمہ داری بھی ادا کرلی، اب مقامی پولیس کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے حکومت کا سہارا لے کر قبر کھدوائی اور لاش کو باہر نکال کر پوسٹ مارٹم کیا ۔

اب  ایسی لاش کا کیا کیا جائے؟ کیا دوبارہ اس کو غسل دیکر دوبارہ نماز جنازہ پڑھائی جائے،   یا غسل و نماز کے بغیر ہی اس کو دفنایا جائے؟

جواب

پوسٹ مارٹم کی غرض سے میت کو قبر سے نکالنا جائز نہیں،  جس  سے اجتناب لازم ہے، پس صورت مسئولہ میں  گھر والوں کی اجازت و خواہش کے نہ ہونے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے قبر کشائی اور پوسٹ ماٹم  کرنے کا گناہ  گھر والوں پر نہ ہوگا، البتہ پوسٹ مارٹم کے بعد مذکورہ نعش کو باقاعدہ تین کپڑوں میں کفن  دے کر  دفن کرنا ضروری ہوگا، البتہ دوبارہ غسل دینے اور نماز جنازہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔

پوسٹ مارٹم  کے لئے قبر کشائی کے حکم کے لئے دیکھیے:

پوسٹ مارٹم کی غرض سے قبرکشائی کا حکم!

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

والحادي عشر المنبوش الطري فيكفن كالذي لم يدفن والثاني عشر المنبوش المتفسخ فيكفن في ثوب واحد اهـ."

(كتاب الجنائز، تكفين الميت، ٢ / ١٩١، ط: دار الكتاب الإسلامي)

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

(و) آدمي (منبوش طري) لم يتفسخ (يكفن كالذي لم يدفن) مرة بعد أخرى (وإن تفسخ كفن في ثوب واحد)

(قوله منبوش طري) أي بأن وجد منبوشا بلا كفن (قوله لم يتفسخ) قيد به لأنه لو تفسخ يكفن في ثوب واحد كما صرح به بعده والظاهر أنه بيان للمراد من قوله طري كما تشهد به المقابلة بقوله وإن تفسخ (قوله كالذي لم يدفن) أي يكفن في ثلاثة أثواب (قوله مرة بعد أخرى) أي لو نبش ثانيا وثالثا، وأكثر كفن كذلك ما دام طريا من أصل ماله عندنا، ولو مديونا إلا إذا قبض الغرماء التركة فلا يسترد منهم، وإن قسم ماله فعلى كل وارث بقدر نصيبه دون الغرماء وأصحاب الوصايا لأنهم أجانب سكب الأنهر."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ٢ / ٢٠٥، ط: دار الفكر)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"قوله: "بلا إذن ولم يقتد به" أما إذا أذن له أو لم يأذن ولكن صلى خلفه فليس له أن يعيد لأنه سقط حقه بالأذن أو بالصلاة مرة وهي لا تتكرر ولو صلى عليه الولي وللميت أولياء آخرون بمنزلته ليس لهم أن يعيدوا لأن ولاية الذي صلى متكاملة."

(كتاب الصلاة، فصل السلطان أحق بصلاته، ص: ٥٩١، ط: دار الكتب العلمية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200634

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں