بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پانچ لاکھ کے عوض گیارہ ماہ کے لیے مکان دینے کا حکم


سوال

 میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں، یہاں (حیدر آباد میں) کچھ لوگ اپنے مکان کا کچھ حصہ 5  لاکھ روپے لے کر 11 ماہ کے  لیے دیتے ہیں، گیس اور بجلی  کے بل کے  لیے کچھ رقم جیسے 1500 سے 3000 روپے تک  fix کرلیتے ہیں، جو کرائے دار ہر ماہ مالک مکان کو ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے اور جب 11 ماہ مکمل ہوجاتے ہیں تو دونوں فریق ایک دوسرے کی رضا سے نیا agreement کرتے ہیں اور اگر دونوں فریق ایک دوسرے سے خوش نا ہوں تو کرائے دار جب مکان خالی کرتا ہے تو جو 5 لاکھ روپے اُس نے مالک مکان کو دیے تھے مالک مکان اُس کو وہ پیسے واپس کرتا ہے، تو میں بھی ایسے ہی مکان لینے کا سوچ رہا ہوں تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں کرائے دار کے  لیے سوال میں مذکورہ طریقہ کے مطابق مکان کرائے پر لینا یا خریدنا جائز نہیں ہے،کیوں کہ مالک مکان جو اپنا مکان پانچ لاکھ روپے کے عوض گیارہ ماہ کے  لیے دیتا ہے یہ نہ تو شرعًا بیع (خریداری) کی شرائط پر پورا اترتا ہے اور نہ ہی شرعًا اجارہ (کرایہ داری) کی شرائط پر پورا اترتا ہے، اس لیے کہ اگر اس معاملہ کو بیع (خریداری) قرار دے کر یہ کہا جائے کہ مالک مکان نے گویا  اپنا مکان گیارہ ماہ کے لیے پانچ لاکھ کے عوض بیچ دیا ہے، اور گیارہ ماہ بعد مالک مکان اور خریدار میں سے ہر ایک کو اختیار ہے کہ اس سودے کو ختم کر کے اپنے پیسے اور اپنا مکان واپس لے لیں، تو اس طرح سے بیع  (خریداری) کرنا شرط فاسد  کی وجہ سے جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس طرح کے معاملہ کو فقہی اصطلاح میں ’’بیع الوفا‘‘ یا ’’بیع بالوفا‘‘ کہا جاتا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ دراصل یہ معاملہ بیع (خریداری) کے بجائے قرض کے بدلہ رہن سے فائدہ اٹھانے کا ہے جو کہ سود کے زمرے میں آنے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

اگر اس معاملہ کو کرایہ داری کا معاملہ قرار دیا جائے تو  چوں کہ معاہدہ کی رو سے مالک مکان پر مکان واپس لیتے وقت پانچ لاکھ روپے واپس کرنا لازم ہیں؛ اس لیے یہ کرایہ داری کا معاملہ نہیں بن سکتا، بلکہ یہ سودی معاہدہ بن جائے گا، گویا کرائے دار ، مالک مکان کو پانچ لاکھ روپے قرضہ دے کر اس کے بدلہ گیارہ مہینے تک اس کے مکان میں رہائش  اختیار کرے گا، یعنی قرض کی وجہ سے رہائش کی منفعت حاصل کی جارہی ہے جو کہ شرعًا سود کے زمرے میں آتی ہے۔

نیز مذکورہ صورت میں  پانچ لاکھ کو سیکیورٹی ڈپازٹ قرار دے کر بھی معاملے کو درست نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ اولاً یہاں مستقل کرایہ مقرر نہیں ہے، اور اگر 1500 یا 300 ہزار متعینہ رقم کو کرایہ ہی قرار دے دیا جائے تو بھی یہ معاملہ جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ سیکیورٹی کی رقم بڑھانے کے ساتھ  کرایہ کم کرنا مشروط ہو تو یہ بھی حکمًا سود ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔ مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک دیکھیے:

بڑا ایڈوانس دے کر مکان کم قیمت میں کرایہ پر لینا

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ معاملہ نہ تو بیع کی شرائط پر پورا اترتا ہے اور نہ ہی کرایہ داری کی شرائط پر، بلکہ مذکورہ معاملہ قرض کے بدلہ نفع اٹھانے (یعنی سودی لین دین) کا ایک ناجائز حیلہ ہے۔

"عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَلَا تَجِيءُ فَأُطْعِمَكَ سَوِيقًا وَتَمْرًا وَتَدْخُلَ فِي بَيْتٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّكَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِهَا فَاشٍ، إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ فَأَهْدَى إِلَيْكَ حِمْلَ تِبْنٍ أَوْ حِمْلَ شَعِيرٍ أَوْ حِمْلَ قَتٍّ فَلَا تَأْخُذْهُ فَإِنَّهُ رِبًا".

( صحیح البخاری 3814)

ترجمہ: سعید بن ابی بردہ اپنے والد  سے روایت کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ حاضرہوا تو میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ  سے  ملاقات  کی ، انہوں نے کہا:  کیا آپ  (ہمارے پاس) نہیں آئیں گے  کہ  میں آپ کو  ستواورکھجورکھلاؤں اورآپ ایک ( باعظمت ) مکان میں داخل ہوں (جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے تھے)  پھر آپ نے فرمایا: تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں، اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اورپھروہ تمہیں ایک تنکے یاجوکے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابربھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا؛ کیوں کہ وہ بھی سود ہے۔

مصنف ابن أبي شيبة (4/ 327):

"عن إبراهيم، قال: «كل قرض جر منفعة، فهو ربا»".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 275):

’’ قلت: ومفاده أنهما لو تواضعا على الوفاء قبل العقد ثم عقدا خاليا عن شرط الوفاء فالعقد جائز ولا عبرة للمواضعة وبيع الوفاء ذكرته هنا تبعا للدرر: صورته أن يبيعه العين بألف على أنه إذا رد عليه الثمن رد عليه العين، وسماه الشافعية بالرهن المعاد، ويسمى بمصر بيع الأمانة، وبالشام بيع الإطاعة، قيل هو رهن فتضمن زوائده، وقيل بيع يفيد الانتفاع به، وفي إقالة شرح المجمع عن النهاية: وعليه الفتوى،وقيل إن بلفظ البيع لم يكن رهنا، ثم إن ذكرا الفسخ فيه أو قبله أو زعماه غير لازم كان بيعا فاسدًا.

 مطلب في بيع الوفاء : ووجه تسميته بيع الوفاء أن فيه عهدا بالوفاء من المشتري بأن يرد المبيع على البائع حين رد الثمن، وبعض الفقهاء يسميه البيع الجائز، ولعله مبني على أنه بيع صحيح لحاجة التخلص من الربا حتى يسوغ المشتري أكل ريعه، وبعضهم يسميه بيع المعاملة. ووجهه أن المعاملة ربح الدين وهذا يشتريه الدائن لينتفع به بمقابلة دينه. (قوله: وصورته إلخ) كذا في العناية، وفي الكفاية عن المحيط: هو أن يقول البائع للمشتري بعت منك هذا العين بما لك علي من الدين على أني متى قضيته فهو لي اهـ. وفي حاشية الفصولين عن جواهر الفتاوى: هو أن يقول بعت منك على أن تبيعه مني متى جئت بالثمن فهذا البيع باطل وهو رهن، وحكمه حكم الرهن وهو الصحيح اهـ. فعلم أنه لا فرق بين قوله على أن ترده علي أو على أن تبيعه مني. (قوله: بيع الأمانة) وجهه أنه أمانة عند المشتري بناء على أنه رهن أي كالأمانة. ... (قوله: قيل هو رهن) قدمنا آنفا عن جواهر الفتاوى أنه الصحيح. قال في الخيرية: والذي عليه الأكثر أنه رهن لا يفترق عن الرهن في حكم من الأحكام. وقال السيد الإمام: قلت: للإمام الحسن الماتريدي: قد فشا هذا البيع بين الناس، وفيه مفسدة عظيمة، وفتواك أنه رهن وأنا أيضا على ذلك فالصواب أن نجمع الأئمة ونتفق على هذا ونظهره بين الناس، فقال المعتبر اليوم فتوانا، وقد ظهر ذلك بين الناس فمن خالفنا فليبرز نفسه وليقم دليله اهـ. قلت: وبه صدر في جامع الفصولين فقال رامزا لفتاوى النسفي: البيع الذي تعارفه أهل زماننا احتيالا للربا وسموه بيع الوفاء هو رهن في الحقيقة لا يملكه ولا ينتفع به إلا بإذن مالكه، وهو ضامن لما أكل من ثمره وأتلف من شجره ويسقط الدين بهلاكه لو بقي ولا يضمن الزيادة وللبائع استرداده إذا قضى دينه لا فرق عندنا بينه وبين الرهن في حكم من الأحكام اهـ، ثم نقل ما مر عن السيد الإمام. وفي جامع الفصولين: ولو بيع كرم بجنب هذا الكرم فالشفعة للبائع لا للمشتري؛ لأن بيع المعاملة وبيع التلجئة حكمهما حكم الرهن وللرهن حق الشفعة وإن كان في يد المرتهن اهـ‘‘.

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں