بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑا ایڈوانس دے کر مکان کم قیمت میں کرایہ پر لینا


سوال

1- اگر کرایہ دار کرایہ کم کرنے کی صورت  میں سال بھر کا کرایہ یکمشت ادا کردے تو یہ جائز ہے؟

2-  کرایہ  کے ایڈوانس کی شرعی تعیین کتنی ہے؟

جواب

1-  اگر کرایہ دار کرایہ کم کرنے کی صورت  میں سال بھر کا کرایہ یکمشت ادا کردے تو  یہ جائز ہے، بشرطیکہ کرایہ کے کم کرنے کوایڈوانس (سیکیورٹی ڈپازٹ) کے  زیادہ ہونے کے ساتھ  مشروط نہ کیا گیا ہو۔ سو اگر یوں  طے کیا گیا کہ کرایہ دار  زیادہ سیکیورٹی دے گا تو کرایہ کم کیا جائے گا تو یہ معاملہ  سود کی اقسام میں سے ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگا۔  ہاں  ڈپازٹ کی رقم معمول کے مطابق ہو  یا بالکل بھی نہ ہو اور کرایہ بھی کم ہو اور کرایہ دار یک مشت ادا کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

2- مکان کرائے پر  لیتے وقت کرایہ ایڈوانس کتنا ہونا چاہیے یہ  شرعًا متعین نہیں ہے،  بلکہ شرعًا یہ ضروری بھی نہیں، اس کی اجازت لوگوں کی ضرورت و تعامل اور اعتماد کی وجہ سے ہے، لہٰذا کرائے پر  دینے والا اور  لینے والا باہم رضا مندی سے اس کو طے کر سکتے ہیں۔البتہ مذکورہ صورت  (یعنی  کرایہ  کم کرنے کو  مارکیٹ میں رائج ایڈوانس  کی مقدار سے بڑھانے کے ساتھ مشروط  کرنے) کی اجازت نہیں ہے؛ کیوں کہ ایڈوانس کی رقم درحقیقت مالکِ مکان یا دوکان کے پاس قرض ہے،   اور قرض دے کر اس پر کسی بھی قسم کا نفع حاصل کرنا شرعًا جائز نہیں ہے، اور یہاں قرض (ایڈوانس) کی مقدار  بڑھاکر کرایہ دار اس سے فائدہ (کرایہ کا کم ہونا) حاصل کر رہاہے۔

النتف فی الفتاوی میں ہے:

أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون. الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلك القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلك (هذا ) القرض لما کان (ذلك) الفعل، فإن ذلك رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه.

(النتف في الفتاوی ، ص: ٤٨٤، ٤٨٥)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):

"وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضاً عن منفعة القرض لا مجاناً، وكذا لو أخذ المقرض من المستقرض حماراً ليستعمله إلى أن يرد عليه الدراهم اهـ وهذه كثيرة الوقوع، والله - تعالى - أعلم".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں