بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو القعدة 1446ھ 14 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

پیسے کے عوض خریدی گئی عورت کے ساتھ جماع کرنے کا حکم


سوال

آج کے دور میں پیسے کے عوض خریدی گئی غلام عورت کہ جس کو میں نے تا حیات کے لیے خرید لیا ہو،  اس کے ساتھ جماع کرنا شرعاً کیسا ہے؟

جواب

موجودہ دور میں کسی عورت کو باندی یا لونڈی نہیں بنایاجاسکتا؛ اس لیے کہ غلام/باندی بنانے کی اجازت  کے لیے  جو شرائط ہیں وہ اس دور میں مکمل نہیں ہیں کہ  شرعی جہاد ہو، امام المسلمین کی رائے ہو اورمسلمانوں اورغیر مسلموں میں کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو جس کی رو سے ایک دوسرے کے قیدیوں کو غلام نہ بنایاجاسکتا ہو  وغیرہ۔ موجودہ دور میں اقوامِ متحدہ کی سطح پر تمام رکن ممالک کے مابین غلامی کا سلسلہ موقوف کرنے کا معاہدہ ہوچکا ہے، اس لیے اس دور میں غلام باندی بنانے کا سلسلہ بالکل موقف کردیا گیا ہے، لہٰذا اب کسی عورت کو باندی بناناجائز نہیں ہے۔  نیز کسی آزاد عورت کی خرید وفروخت کرنا کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے،  اس طرح کرنے سے وہ عورت باندی نہیں بن جائے گی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے کسی عورت کو پیسےکے عوض تاحیات یا محدود مدت کے لیے خریدلینا مطلقاً جائز نہیں ہے، اور بغیر نکاح کے اس عورت کے ساتھ جماع کرنا بھی جائز نہیں ہے، ایسا تعلق حرام کاری میں شمار ہوگا۔وہ عورت بدستور آزاد ہے اور سائل  کے لیے نامحرم ہے، اس سے پردہ کرنا بھی ضروری ہے۔ 

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

باندی رکھنا

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون مالا لأن البيع مبادلة المال بالمال، فلا ينعقد ‌بيع ‌الحر؛ لأنه ليس بمال، وكذا ‌بيع أم الولد؛ لأنها حرة من وجه".

(كتاب البيوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه، ٥/ ١٤٠، ط:دار الكتب العلمية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال -رحمه الله- (لم يجز ‌بيع الميتة والدم والخنزير والخمر والحر وأم الولد والمدبر والمكاتب) لعدم ركن البيع وهو مبادلة المال بالمال وبيع هذه الأشياء باطل ... والأصل فيه أن ‌بيع ما ليس بمال عند أحد كالحر والدم والميتة التي ماتت حتف أنفها والمدبر وأم الولد والمكاتب باطل".

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ٤/ ٤٤، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قلت: لكن قدمنا في العتق أن المراد بكونهم أرقاء أي ‌بعد ‌الاستيلاء عليهم، أما قبله فهم أحرار لما في الظهيرية لو قال لعبده نسبك حر أو أصلك حر إن علم أنه سبي لا يعتق وإلا عتق قال وهذا دليل على أن أهل الحرب أحرار اهـ".

‌‌(كتاب الجهاد، ‌‌باب استيلاء الكفار على بعضهم بعضا أو على أموالنا، ٤/ ١٦٤، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144602102833

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں