بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن دروس میں شرکت کر کے کسی عالم دین کو اپنا استاذ کہنے کا حکم


سوال

 کوئی بندہ انٹرنیٹ کے ذریعے کسی عالم کادرس سن کر سیکھ جاتا ہے اور دوسروں کو پڑھاتا ہے یا کسی کتاب کو یوٹیوب کے ذریعے سن کر سیکھ لیتا ہے اور دوسروں کو پڑھاتا ہے اور پھر اس عالم کی طرف نسبت کرتا ہے کہ فلاں میرا قرآن کا استاد ہے، فلاں میرا حدیث کا استاد ہے، اگر وہ عالم دیوبندی ہو تو یہ اس کی وجہ سے اپنی نسبت بھی دیوبند کی طرف منسوب کرتا ہو اس میں شرعی نقطه نظر سے کوئی قباحت تو نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں صرف کسی عالم دین کے محفوظ دروس سن کر یہ کہنا کہ فلاں عالم دین میرے استاذ ہیں درست نہیں ہے، کیوں کہ علمی دنیا   میں کسی شخص کے استاذ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہےکہ فلاں شخص نے اس استاذ کی صحبت اٹھائی ہے اور براہِ راست اس سے کتب پڑھی ہیں، لہذا  دروس سن کر اس طرح کے دعوی کرنے میں ایک گنا دھوکہ  کا عنصر  موجود ہے، اپنی نسبت دیوبند کی طرف کرنا درست ہے، کیوں کہ دیوبندیت  اہل سنت و الجماعت کے عقائد  پر کاربند ہونے کا نام ہے، لہذا جو شخص اہل سنت والجماعت کے عقائد پر کاربند ہو وہ اپنے آپ کو دیوبندی کہہ سکتا ہے۔  

نیز کسی کتاب کو یوٹیوب کے ذریعہ سن کر آگے پڑھانے میں کئی مفاسد موجود ہیں، لہذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

باقی یوٹیوب  پر چینل بنانے اور اس کے ذریعے پڑھانے کے حوالے سے حکم درج ذیل لنک میں ملاحظہ کیجیے:

یوٹیوب پر علماء کے بیانات کا چینل بناکر کمانا

یوٹیوب پر قرآن مجید کی آڈیو انگلش ترجمہ کے ساتھ اَپ لوڈ کرنا

یوٹیوب چینل بنانا اور ویڈیوز اَپ لوڈ کر کے پیسے کمانے کا حکم

یوٹیوب پر اسلامی چینل بنانا

تعلیم المتعلم میں ہے:

"ثم لا بد من الجد و الجد و المواظبة و الملازمة لطالب العلم واليه اشارة في القرأن بقوله تعالي: يا يحيي خذ الكتاب بقوة و قوله تعالي و الذين جاهدوا فيما لنهديههم سبلنا.... ولا بد لطالب العلم من المواظبة  علي الدرس."

(فصل فی الجد و المواظبۃ الھمۃ ص نمبر ۹۰،المکتب الاسلامی) 

تذكرة السامع والمتكلم في أدب العالم والمتعلم (ص121):

"أن يصحح ما يقرؤه قبل حفظه تصحيحًا متقنًا إما على الشيخ أو على غيره مما يعينه، ثم يحفظه بعد ذلك حفظًا محكمًا ثم يكرر عليه بعد حفظه تكرارًا جيدًا، ثم يتعاهده في أوقات يقررها لتكرار مواضيه، ولا يحفظ شيئًا قبل تصحيحه لأنه يقع في التحريف والتصحيف وقد تقدم أن العلم لا يؤخذ من الكتب فإنه من أضر المفاسد. وينبغي أن يحضر معه الدواة والقلم والسكين للتصحيح ولضبط ما يصححه لغة وإعرابًا."

(باب ثالث، فصل ثالث ص نمبر ۱۲۱-۱۲۴،دائرة المعارف)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں