بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کےحصول کےلیےبائیپسی کرانا،اورٹیسٹ ٹیوب بےبی کاشرعی حکم


سوال

میری شادی کو7سال ہوگئےہیں اورمیری کوئی اولاد نہیں ہے،میں نےاپنااوربیوی کاٹیسٹ کروایا،بیوی کی رپورٹ تو صحیح آئی ہےلیکن میری رپورٹ صحیح نہیں آئی ،میری رپورٹ میں اسپرم بالکل نہیں ،یعنی صفر ہےاور اس کومردانہ بانجھ پن کہتےہیں ،لیکن میں پھربھی بہت سے ڈاکٹروں کےپاس گیااور علاج کروایا،بہت دوائیاں کھائیں ہربل بھی اور اینٹی بائیوٹک بھی لیکن کوئی فائدہ حاصل  نہیں ہوا، اب ڈاکٹروں کاکہناہےکہ اس کاایک ہی حل ہےوہ یہ کہ بائیپسی کی جائے یعنی کہ آپ کاآپریشن کرکےآپ کےانڈے سے sampleلےکرچیک کریں گے،اگر اس میں اسپرم مل گیاتو اس سے ٹیسٹ ٹیوب بےبی کرائیں گے،اور بائیپسی ایسے ادارے سے کرائی جائے جہاں پراگر اسپرم مل گیاتو اس کومحفوظ رکھنے کےلیے لیب موجود ہو،اور ایساادارہ کراچی میں تین تلوار کلفٹن میں ہےجہاں یہ سہولیات موجودہیں اور ٹیسٹ ٹیوب بےبی کی بھی سہولت موجودہے،لیکن اگربائیپسی میں اسپرم نہیں ملتاہے تواس کاپھر کوئی علاج نہیں ہے،اور پھراولاد پیدانہیں ہوسکتی ،یعنی مردکوپہلےبائیپسی کرانی ہوگی اس کے بغیرٹیسٹ ٹیوب بےبی کا فیصلہ نہیں کیاجاسکتا،اور اگراسپرم مل جاتاہےتوآگے کاعمل وہ میری بیوی کےانڈے اور میرے اسپرم سے ٹیسٹ ٹیوب بےبی کریں گے۔

میں یہ سب اپنی بیوی کی پریشانی کی وجہ سےکرارہاہوں اس کوبچوں کےنہ ہونےکی وجہ سےبہت پریشانی ہے۔

اب پوچھنایہ ہےکہ شرعی لحاظ سے میرے لیےبائیبسی کراناکیساہے،کیااولاد کےحصول کےلیےمیں یہ عمل کرسکتاہوں؟

جواب

واضح رہےکہ شریعت میں ہرعاقل،بالغ  پراپنی شرمگاہ کی حفاظت فرض ہے،کسی عاقل ،بالغ کاغیرکےسامنےاپنےاعضائےمستورہ کو ظاہرکرناحرام ہے،ہاں اگرکوئی شرعی ضرورت ہومثلاً ایسامرض لاحق ہوجائےجس کاعلاج بغیراعضائےمستورہ کےظاہرکئےہوئےممکن نہ ہوتوایسی صورت میں ڈاکٹریاطبیب کےسامنےضرورت کےبقدراعضاکوظاہرکرناجائزہے،لیکن یادرہےکہ میاں بیوی کےلیےبچوں کاہوناکوئی ایسی شرعی ضرورت نہیں ہے،کہ جس کی خاطرغیرکےسامنےاپنےجسم کےمخصوص اورشرم والےحصےکوکھولاجائے،بلکہ ایک فطری خواہش ہے،اس لیےکہ بغیراولادبھی انسان جی سکتاہےاورجیتےرہے۔

توصورتِ مسئولہ میں سائل نےبائیپسی اوراس کےبعدمراحل کاجوطریقہ کاربتایاہےجس میں غیروں کےسامنےاعضائےمخصوصہ کو ظاہرکرناپڑےشرعاًجائزنہیں،اس لیےکہ اس صورت میں بغیرعذرِشرعی کےغیرکےسامنےاپنےاعضائےمستورہ ظاہرکرنےپڑتےہیں،جوکہ حرام ہے،ہاں اگربائیپسی کاعمل کسی ایسےطریقہ کےمطابق کیاجائےجس میں شرمگاہ غیرکےسامنےظاہرکرنی نہ ہو،مثلاًسرنج وغیرہ کےذریعےیہ مادہ نکالاجائے،اورپھرٹیسٹ کےبعدکارآمداسپرم       ملنےکی صورت  میں غیروں کےبجائےشوہراپنی بیوی کےرحم میں (طریقہ کارسیکھ کر)خودڈالے،تواس طریقےکےمطابق بائیپسی اوراس کےبعدکی کاروائی کی شرعا گنجائش ہے۔

الغرض ٹیسٹ ٹیوب بےبی کاعمل بھی اسی سابقہ شرط کےساتھ جائزہوگاکہ اس میں میاں بیوی کوغیرکےسامنےشرمگاہ نہ دکھانی پڑے،اور مردکےنطفےکونکالنااورپھراسےعورت کےرحم میں ڈالنایہ تمام کام  میاں بیوی کسی ڈاکٹرسےسیکھ لیں اورخودکریں،تاکہ بلاضرورت ِشرعیہ غیرکےسامنےشرمگاہ ظاہرنہ ہو،اس ذکرکردہ تفصیل کےساتھ  بائیپسی اورٹیسٹ ٹیوب بےبی کی شرعًاگنجائش ہے۔

مزید دیکھیے:
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا شرعی حکم

سنن ترمذی میں ہے :

"حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا يحيى بن سعيد قال: حدثنا بهز بن حكيم قال: حدثني أبي، عن جدي، قال: قلت: يا رسول الله عوراتنا ما نأتي منها وما نذر؟ قال: "‌احفظ ‌عورتك إلا من زوجتك أو ما ملكت يمينك، فقال: الرجل يكون مع الرجل؟ قال: إن استطعت أن لا يراها أحد فافعل، قلت: والرجل يكون خاليا، قال: فالله أحق أن يستحيا منه" هذا حديث حسن، وجد بهز اسمه: معاوية بن حيدة القشيري، وقد روى الجريري، عن حكيم بن معاوية وهو والد بهز"

(باب ماجاء في حفظ عورة،ج:5،ص:97،ط:مصطفى البابي الحلبي – مصر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأن ‌ستر ‌العورة ‌فريضة"

(كتاب الشهادة،فصل في ركن الشهادة،ج:6،ص:269،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وكذا يجوز أن ينظر إلى موضع الاحتقان لأنه مداواة ويجوز الاحتقان للمرض، وكذا للهزال الفاحش على ما روي عن أبي يوسف لأنه أمارة المرض هداية، لأن آخره يكون الدق والسل، فلو احتقن لا لضرورة بل لمنفعة ظاهرة بأن يتقوى على الجماع لا يحل عندنا كما في الذخيرة (قوله وينبغي إلخ) كذا أطلقه في الهداية والخانية. وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اهـ فتأمل والظاهر أن " ينبغي " هنا للوجوب"

(كتاب الحظروالاباحة،فصل في النظرواللمس،ج:6،ص:371،ط:دار الفكر – بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ويجوز للرجل النظر إلى فرج الرجل للحقنة كذا ذكر شمس الأئمة السرخسي، كذا في الظهيرية. وقد روي عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - إن كان به هزال فاحش فقيل له: إن الحقنة تزيل ما بك من الهزال فلا بأس بأن يبدي ذلك الموضع للحقنة وهذا صحيح، فإن الهزال الفاحش نوع مرض يكون آخره الدق والسل وذكر شمس الأئمة الحلواني - رحمه الله تعالى - في شرح كتاب الصوم أن الحقنة إنما تجوز عند الضرورة، وإذا لم يكن ثمة ضرورة ولكن فيها منفعة ظاهرة بأن يتقوى بسببها على الجماع لا يحل عندنا، وإذا كان به هزال، فإن كان هزال يخشى منه التلف يحل، وما لا فلا، كذا في الذخيرة"

(الباب الثامن فيمايحل للرجل النظراليه ومالايحل،ج:5،ص:330ط:دارالفكر،بيروت)

فقط والله تعالى اعلم


فتوی نمبر : 144509100995

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں