بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا شرعی حکم


سوال

میری شادی کو تقریباً پانچ سال ہو نے کو ہیں ، ابھی تک کوئی اولاد نہیں پیدا ہوئی ہے،علاج بہت زیادہ کروایا ہے اور دوائیاں بھی ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق بہت زیادہ استعمال کی ہیں ،اب ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ آپ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کروا لیں، اور جب بچہ ہو جائے تو آپ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے بچہ کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کروا سکتے ہیں تاکہ آپ کو بالکل کنفرم پتا  چل جائے کہ مادہ  ہم نے آپ کا  ہی استعمال کیا ہے  کسی اور  کا نہیں۔ اور یہ بچہ آپ کا ہی ہے۔  اور ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعے بھی تیس سے چالیس فیصد تک امکان ہوتا ہے کہ بچہ پیدا ہوگا ۔

میرا اپنا دل نہیں مانتا لیکن رشتہ دار مجبور کر رہے ہیں کہ علاج سنت ہے کر لو،میری اپنی سوچ یہ ہے کہ جب اللہ رب العزت نے دینا ہوگا تو ایسے ہی دے دے گا اور اگر نہیں دینا ہوگا تو ٹیسٹ ٹیوب سے بھی نہیں دے گا۔

آپ مجھے شریعت کا حکم بتائیں؛ تاکہ میں ان کو شریعت کی بات بتاؤں، اور مجھے آپ کا مشورہ بھی چاہیے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ اور میرے لیے دعا بھی فرمائیں کہ میری کامل اصلاح ہو جائے اور نیک صالح اولاد نصیب فرمائے!

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے  ٹیسٹ  ٹیوب  بے بی کے ذریعے علاج کی گنجائش صرف اس صورت میں ہے کہ جب دونوں میاں بیوی ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا عمل کسی ڈاکٹر سے معلوم کر کے پورا عمل از خود ہی انجام دیں یعنی جرثومے نکالنے اور داخل کرنے میں کسی اجنبی مرد اور عورت کا عمل دخل نہ ہو۔

لیکن اگر میاں بیوی  کے جرثومے نکالنے اور داخل کرنے میں تیسرے مرد یا عورت کا دخل ہوتا ہے اور اجنبی مرد اور عورت کے سامنے شرمگاہ دیکھنے یا دکھانے اور مس کرنے یا کرانے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس طرح بے حیائی اور بے پردگی کے ساتھ بچہ پیدا کرنے کی خواہش پوری کرنے کی شرعاً اجازت نہ ہو گی کیوں کہ بچہ پیدا کرنا کوئی فرض یا واجب امر نہیں ہے ،نہ ہی بچہ پیدا نہ ہونے سے انسان کو جان یا کسی عضو کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے، گویا کہ کوئی شرعی یا اضطراری کیفیت نہیں پائی جارہی ہے جس سے بدن کے مستور حصے خصوصاً شرمگاہ کو اجنبی مرد یا عورت کے سامنے کھالنے کی جازت ہو ۔

نیز حصول اولاد کے لیے کثرتِ استغفار قرآن و حدیث سے ثابت شدہ عمل ہے ،لہذا میاں بیوی دونوں کثرت سے استغفار کریں اور قرآن میں حصول اولاد کے لیے منقول دعاؤں کا خاص طور پر فرض نمازوں کے بعد اہتمام کرے ۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اهـ فتأمل والظاهر أن "ينبغي" هنا للوجوب."

(کتاب الحظر و الإباحة، فصل فی النظر و المس، ج:6،ص: 371، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ذکر شمس الأیمة الحلواني رحمه اللہ تعالی في شرح کتاب الصوم أن الحقنة إنما تجوز عند الضرورة، وإذا لم یکن ثمة ضرورة ولکن فیھا منفعة ظاھرة بأن یتقوی بسببھا علی الجماع لا یحل عندنا."

(کتاب الکراھیة، الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له وما يحل له مسه وما لا يحل،ج: 5،ص: 330، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع ميں ہے:

"ولا يجوز لها أن تنظر ما بين سرتها إلى الركبة إلا عند الضرورة بأن كانت قابلة فلا بأس لها أن تنظر إلى الفرج عند الولادة.وكذا لا بأس أن تنظر إليه لمعرفة البكارة في امرأة العنين والجارية المشتراة على شرط البكارة إذا اختصما وكذا إذا كان بها جرح أو قرح في موضع لا يحل للرجال النظر إليه فلا بأس أن تداويها إذا علمت المداواة فإن لم تعلم تتعلم ثم تداويها فإن لم توجد امرأة تعلم المداواة ولا امرأة تتعلم وخيف عليها الهلاك أو بلاء أو وجع لا تحتمله يداويها الرجل لكن لا يكشف منها إلا موضع الجرح ويغض بصره ما استطاع لأن الحرمات الشرعية جاز أن يسقط اعتبارها شرعا لمكان الضرورة كحرمة الميتة وشرب الخمر حالة المخمصة والإكراه لكن الثابت بالضرورة لا يعدو موضع الضرورة لأن علة ثبوتها الضرورة والحكم لا يزيد على قدر العلة هذا الذي ذكرنا حكم النظر والمس."

(کتاب الاستحسان، 124/5، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: میری شادی کو بارہ برس گزر گئے، میری منی میں جراثیم مردہ پائے گئے ہیں، اس لیے بچہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جس طرح ٹیوب سے مویشی کو حمل کرایا جاتا ہے، اسی طرح تم اپنی عورت کو حاملہ کرالو، یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: عورت کو اس طرح گھوڑی بناکر اولاد حاصل کرنا  ہر گز جائز نہیں، ڈاکٹروں اور حکیموں سے اپنا علاج کرائیں، اور حق تعالی سے دعاء کریں۔"

(کتاب الحظر و الاباحۃ، 18/ 324، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100545

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں