بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز سے پہلے امام کیا نیت کرتا ہے؟


سوال

نماز کے لیے امام کیا نیت کرتا ہے؟

میں نے سنا ہے کہ امام نماز سے پہلے عربی الفاظ میں بھی نیت کرتا ہے ، مجھے وہ الفاظ بتا دیجیے۔

جواب

1۔واضح رہے کہ نیت در اصل دل کے ارادے کا نام ہے،نماز شروع کرتے وقت زبان سے نیت کرنا یا خاص طور پر عربی الفاظ  میں نیت کرنا ضروری نہیں ہے، اگر امام کے دل میں یہ ارادہ اور قصد ہوکہ میں امامت کررہاہوں(یعنی لوگوں کو نماز پڑھارہاہوں)   تو اس ارادے سے امامت کی نیت بھی ہو جائے گی اور جماعت کا ثواب بھی حاصل ہوجائے گا، تاہم نیت میں دو باتوں کا ہونا ضروری ہے:ایک یہ کہ "اللہ کے واسطے نماز پڑھنے کی نیت"، دوسرا یہ کہ "وقتی فرض نماز مثلاً: ظہر، عصر وغیرہ کی نیت"۔

2۔اگر کوئی امام عربی الفاظ کے ساتھ نیت کرنا چاہے تو وہ ان الفاظ کے ساتھ نیت کرسکتا ہے:"نويت أن أصلي صلاة الفجر ركعتين فرضاً لله تعالى وأنا إمام"، لیکن اس کو ضروری سمجھنا غلط ہے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة) فلا عبرة للذكر باللسان إن خالف القلب لأنه كلام لا نية إلا إذا عجز عن إحضاره لهموم أصابته فيكفيه اللسان مجتبى (وهو) أي عمل القلب (أن يعلم) عند الإرادة (بداهة) بلا تأمل (أي صلاة يصلي) فلو لم يعلم إلا بتأمل لم يجز.(والتلفظ) عند الإرادة (بها مستحب) هو المختار.

(قوله: و المعتبر فيها عمل القلب) أي أن الشرط الذي تتحقق به النية ويعتبر فيها شرعا العلم بالشيء بداهة الناشئ ذلك العلم عن الإرادة الجازمة لا مطلق العلم ولا مجرد القول باللسان. والحاصل أن معنى النية المعتبر في الشرع هو العلم المذكور، وهذا معنى ما نقل عن ابن سلمة كما قدمناه؟ وأما قولهم: لايصح تفسير النية بالعلم فالمراد به مطلق العلم الخالي عن القصد بقرينة الاعتراض المار فافهم، لكن في جعله العلم من أعمال القلب مسامحة؛ لأن العلم من الكيفيات النفسانية كما حقق في موضعه (قوله: إن خالف القلب) فلو قصد الظهر وتلفظ بالعصر سهوا أجزأه كما في الزاهدي قهستاني (قوله: فيكفيه اللسان) أي بدلا عن النية. واعترضه في الحلية بأنه يلزم عليه نصب الإبدال بالرأي لأنه إذا سقط الشرط للعجز فقد يسقط إلى بدل كما في التيمم أو بلا بدل كستر العورة، وقد يسقط المشروط كما في العاجز عن الطهورين فإثبات أحد هذه الاحتمالات لا بد له من دليل."

(كتاب الصلوة، باب شروط الصلوة، ج:1، ص:415، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(والإمام ينوي صلاته فقط) و (لا) يشترط لصحة الاقتداء نية (إمامة المقتدي)، بل لنيل الثواب عند اقتداء أحد به قبله".

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ج:1، ص:424، ط: سعيد)

مزید تفصیل کے لیے لنک ملاحظہ فرمائیں:

نماز کے لیے نیت کے الفاظ کا حکم

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100714

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں